میں اپنی شادی کا چھوٹا سا حوالہ قبل ازیں دے چکا ہوں ۔ میری شادی کا قصہ بھی شاید میری طرح عجوبہءِ روزگار ہے
میں 2 بہنوں اور 3 بھائیوں سے بڑا ہوں اور 2 بہنیں مجھ سے ڈھائی اور ساڑھے پانچ سال بڑی ہیں ۔ مجھ سے ڈھائی سال بڑی بہن 1964ء میں اُن کی شادی تک میری خودساختہ محافظ ۔ مُنتظم عوامی تعلقات (public relations manager) اور مُخبر رہیں ۔ میرے متعلق یا اُن کے مطابق کوئی دلچسپ بات ہو تو مجھے علیحدگی میں بتاتیں ۔ بچپن میں میری یہ بہن مجھ سے جتنا زیادہ پیار کرتی تھیں میں اتنا ہی ان کو چڑاتا تھا ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں آخری امتحان دے کر گھر راولپنڈی پہنچا تو موقع پاتے ہی بولیں ”آؤ تمہیں بڑی دلچسپ بات بتاؤں ۔ فلاں لڑکی جو گارڈن کالج میں تمہاری ہمجماعت تھی نا ۔ اُس کی امی ہماری امی کے پاس آئیں تھیں ۔ تمہارے رشتہ کیلئے“۔ میں نے ٹوکا تو بولیں ”میری بات تو سُنو ۔ پہلے وہ اپنی بیٹی کی تعریفیں کرتی رہیں اور بتایا کہ میڈیکل کالج کے آخری سال میں ہے پھر تمہاری تعریفیں شروع ہو گئیں پھر کہنے لگیں کہ ہماری خواہش ہے کہ اچھے لوگوں سے واسطہ پڑے ۔ یہ کس لئے کر رہی تھیں ؟ تمہارے رشتہ کیلئے نا ”۔
خیر ۔ اس کے بعد اگلے ڈھائی تین سالوں میں میری بہن نے مزید 4 مختلف لوگوں کی تشریف آوری کے متعلق بتایا ۔ ایک دن میں کہیں گیا ہوا تھا واپس گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بہن مجھے اُچک کر ایک طرف لے گئیں اور کان میں کہا ”تمہارے سلسلے میں فلاں مُلک سے لوگ آئے ہوئے ہیں ساتھ لڑکی بھی ہے ۔ دیکھ لو پھر مجھے بتانا کیسی ہے“۔ میں نے چڑانے کیلئے کہا ”آپ جو میرے لئے لڑکی تلاش نہیں کرتیں تو لوگوں نے مجھے لڑکی سمجھ لیا ہے“۔ خیر یہ تو سب تھا بہن بھائی کا معاملہ
شادی کیلئے پسند کے بارے میں قبل ازیں لکھ چکا ہوں ۔ اب کچھ تفصیل ۔ میرے بھائی نے جو مجھ سے سوا 3 سال چھوٹا ہے شروع 1965ء میں شادی کیلئے بیقراری دکھائی تو میری والدہ محترمہ (اللہ جنت نصیب کرے) جو کب سے میری شادی کی فکر میں تھیں متحرک ہو گئیں اور اپنے سے چھوٹی بہن کی بیٹی کو بہو بنانے کیلئے اُن کے پاس سیالکوٹ گئیں لیکن خالہ صاحبہ نے اپنی بیٹی کا رشتہ کرنے سے انکار کر دیا
میں جولائی میں کراچی ایک کورس کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور چھوٹے ماموں کے پاس ٹھہرا تھا ۔ اچانک ایک دن بڑے ماموں شارجہ سے پہنچ گئے ۔ مجھ سے علیحدگی میں پوچھا ” تم کسی ڈاکٹر کو پسند کرتے ہو ؟“ میں نے انکار کیا تو پوچھا ”وہ ڈاکٹر کون ہے؟“ میں نے کہا ”میں نہیں جانتا آپ کس ڈاکٹر کی بات کر رہے ہیں“۔ پھر کہا ”تم ۔ ۔ ۔ ۔ سے شادی نہیں کرنا چاہتے ؟“ میں نے کہا ”امّی گئی تھیں مگر خالہ نے انکار کر دیا“۔ پھر بڑے ماموں نے چھوٹے ماموں کو بُلایا اور اُن پر چڑھائی کر دی ” تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو کہ ہماری دونوں بڑی بہنیں جو ماں کے برابر ہیں جُدا ہونے کو ہیں“۔ دو دن بعد میں نے واپس راولپنڈی جانا تھا ۔ بڑے ماموں نے کہا ”ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ جائیں گے“ ۔
دونوں ماموں میرے ساتھ وزیرآباد تک گئے اور سیالکوٹ جانے کیلئے اُتر گئے ۔ بڑے ماموں کہہ گئے کہ ”آپا جی سے کہہ دینا ہم چھوٹی آپا کو لے کر راولپنڈی پہنچ رہے ہیں“۔ بڑے ماموں کو میں نے بچپن سے یہی دیکھا تھا کہ ہر وقت مذاق ۔ ہنسنا اور ہنسانا ۔ اس بار وہ بالکل سنجیدہ تھے اور بہت متفکر نظر آتے تھے ۔ باتیں بھی نہیں کر رہے تھے حالانکہ بڑے ماموں موجود ہوں تو گھر گُل و گُلزار نہ بنا ہو ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں حیران تھا کہ بڑے ماموں اتنے سنجیدہ ہو سکتے ہیں
دونوں ماموں 2 دن بعد بڑی خالہ جو میری امی کے بعد بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں کو لے کر پہنچ گئے ۔ ہم سب بہن بھائیوں کو بھگا دیا گیا اور مباحثہ شروع ہوا ۔ گھنٹہ ڈیڑھ بعد بڑے ماموں کی زور دار آواز آئی ”اجمل“۔ میں بھاگتا ہوا پہنچا ۔ بڑے ماموں ہنس رہے تھے اور بولے ”جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ اور منہ میٹھا کراؤ“۔ میں نے ماموں کو ہنستے دیکھا تو بے تکلف ہو کر بولا ”کتنی ۔ ایک من یا ایک ٹرک ؟“
میرے ہموطن جو قومی اور اجتمائی بہتری کی نہ منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ پیش بندی ۔ البتہ فتور پھیلانے کیلئے کچھ ہموطن سالوں پہلے پیش بندی کرنے کے بعد منصوبہ بندی کر کے عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں ۔ لوگ جو اجنبی نہیں رشتہ دار ہی تھے نے پہلے تو میری خالہ سے تعلقات بڑھائے پھر ہمدرد اور خیرخواہ بنے اور ناجانے میرے والدین اور میرے متعلق کیا کیا من گھڑت باتیں اس طرح بتاتے رہے کہ خالہ کو یقین آ گیا ۔ وہ خالہ جو میری امی کی پکی سہیلی بھی تھیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سے رشتہ کے سلسلہ میں امی کے رشتہ مانگنے جانے سے قبل کسی نے کسی قسم کا اشارہ بھی نہیں دیا تھا اور نہ ہی میری شادی کی کبھی بات کی تھی ۔ کوئی پوچھتا بھی تو میرے والدین ٹال دیتے تھے
شادی کے کئی سال بعد میری بیوی نے بتایا کہ منگنی کے بعد بھی یہ کوششیں جاری رہیں اور ایک موزوں قسم کا رشتہ بھی بتایا جو لڑکا مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ تھا ۔ کماتا بھی زیادہ تھا اور دولتمند خاندان سے تعلق تھا ۔ جب دباؤ بہت بڑھ گیا تو میری خالہ نے اپنی بیٹی سے بات کی جس نے کہا ”اب میں صرف اجمل سے شادی کروں گی“۔ شادی کے کئی سال بعد مجھے بیوی کے بڑے بھائی نے بتایا ”جس آدمی کی تم تعریف کر رہے ہو اس نے تمہاری منگنی کے بعد مجھے خط لکھا تھا کہ آرڈننس کلب میں شراب ملتی ہے اور اجمل بھی اس کا ممبر ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میری ہی تحریک پر 1966ء میں آرڈننس کلب میں شراب کی فروخت بند ہوئی تھی
نومبر 1967ء میں شادی ہو گئی لیکن ابلیس نے پیچھا نہ چھوڑا ۔ شادی کے چند ماہ بعد میں بیوی کو ایک ماہ کیلئے خالہ کے پاس چھوڑ آیا جیسا کہ ہمارے خاندانوں میں رواج تھا ۔ 2 ہفتے بعد بیوی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ واپس پہنچ گئی ۔ مجھے حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی ۔ جب بھائی چلے گئے تو میں نے کہا ”آپ نے تو ایک ماہ رہنے کا کہا تھا ۔ خیریت تو ہے نا“۔ بولی ”اب پہلے والی بات نہیں ۔ میں اب آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی“۔ میں خاموش ہو گیا ۔ کچھ دن بعد خود ہی بتایا ”دوسرے ہفتے کے آخر میں کچھ قریبی رشتہ دار اکٹھے ہوئے اور میری مظلومیت اور آپ کی زیادتیوں پر باتیں ہوئیں ۔ میں کمرے میں سب سُن رہی تھی ۔ پھر ایک رشتہ دار نے فیصلہ دے دیا کہ طلاق لے لی جائے ۔ کچھ دیر بعد امی یہ کہہ کر کمرے میں آئیں کہ جس کا معاملہ ہے میں اُس سے تو پوچھ لُوں ۔ میری مرضی پوچھی ۔ میں نے کہا میں اپنے گھر میں بہت خوش ہوں ۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں ۔ مجھے بھائیجان کل صبح واپس چھوڑ آئیں“۔
میری خالہ شروع سے ہی میرا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ ناجانے منگنی سے قبل کیسے دھوکہ کھا گئیں لیکن اُس کے بعد اُنہوں نے بہت سمجھداری سے کام لیا اور میرا خیال بھی بہت رکھا
یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے
بہت ہی دل چسپ تفصیل لگی . لوگ جو بهی کریں جو بهی چاہئے ہوتا تو وہ ہی جو اللہ نے لکه دیا .
آپ کے اس واقعہ سے بهابی بہت سمجهدار سلجهی ہوئی خاتو ن لگی .اللہ جوڑی کو سلامت رکهے .
خاندان والے شائد دوسروں کی ٹوہ میں ہی لگے رہتے ہیں۔
میں نام نہ لوں گی چند ایک لوگ ایسے ہمارے یہاں بھی ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے سے منساسبت دیتے ہیں
کہ فلاں بہتر تھا فلاں سے اور واقعی جب حقیقت کھلتی ہے تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کو جو میسر ہے وہی بہتر ہے
جو نہ مل سکا شکر کریں کہ ان دیکھے عذاب سے بچ گئے۔
آپ کی آپ بیتی کا ٹکڑا اچھا لگا پڑھ کر
واقعی میاں بیوی میں اگر انڈرسٹنڈنف ہو تو زندگی میں ہی جنت مل جاتی ہے۔
بہت خوب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی آپ بیتی پوری پڑھنے بڑا مزہ آئے گا ۔ ۔ ۔ ۔
9 واں پیراگراف تو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔ ۔ ۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ طلاق کے بارے میں دوسرے لوگ ہی اپنا فیصلہ سناتے ہیں اور جس کی زندگی کا اتنا بڑا معاملہ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اسے سے رائے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا کی نہیں جاتی۔۔۔
شکریہ اجمل صاحب !!
بہن کوثر بیگ صاحبہ
شکری ۔ اللہ جزائے خیر دے
نور محمد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ اپنے ساتھ بیتے موٹے موٹے واقعات تو مین شائع کر چکا ہوں ۔ میری تحریر ” میری ذات“ جو مین نے 9 جنوری کو شائع کی تھی اگر آپ نے پڑھی ہے تو اس میں کئی حوالے موجود ہیں جن پر کلک کر کے آپ سب پڑھ سکتے ہیں