سلامتی کونسل کی وہ قرارداد جو امریکہ نے جولائی یا اس سے قبل پیش کی تھی اور چین نے پاکستان کا ساتھ دیدتے ہوئے ویٹو کر دی تھی وہ 10 دسمبر کو کیونکر منظور ہو گئی اور پاکستان کے نامور رفاہی اداروں پر پابندی لگ گئی ۔ چین کا یہ عمل مجھے پریشان کئے ہوئے تھا ۔ میں نے ایک باخبر شخص سے بُدھ یا جمعرات یعنی 17 یا 18 دسمبر 2008ء کو اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو میں دنگ رہ گیا تھا جب اُس نے کہا “صدر زرداری نے امریکہ کے دباؤ کے تحت چین سے درخواست کی تھی کہ اب اُس قرارداد کو ویٹو نہ کیا جائے”۔ اس انکشاف نے مجھے شدید شش و پنج میں مبتلا کئے رکھا تھا کہ آج یہ بات اخبار کی زینت بن گئی
سلامتی کونسل کی ایک پندرہ رکنی کمیٹی کی جانب سے 10دسمبر کو پاکستان کے تین افراد اور تین تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ قومی، سیاسی اور مذہبی حلقوں میں اب تک موضوع گفتگو بنا ہوا ہے اور یہ امر بھی ان کے لئے خاصا حیران کن ہے کہ چین جو اب تک اس نوع کی قراردادوں کو 7 مرتبہ ویٹو کر چکا ہے اس نے اس نازک مرحلے پر پاکستان کی حمایت سے دست کشی اختیار کر کے اس قرارداد کے متفقہ طور پر منظور کئے جانے کی راہ کیوں ہموار کی۔ اقوام متحدہ کے سفارتی حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ چین کے بارے میں یہ تاثر کہ اس نے پاکستان کے ساتھ اپنی ہمالہ سے زیادہ بلنداور سمندر سے زیادہ گہری دوستی کے تمام تر دعووں اور ہر دو ممالک کی دیرینہ دوستی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر مغرب کا ساتھ دیا، کسی طرح درست نہیں اور حقائق یہ ہیں کہ بیجنگ نے یہ قدم بھی اسلام آباد سے باقاعدہ مشورے اور اس کی طرف سے کئے جانے والے اصرار کے بعد ہی اٹھایا ہے اس لئے اسے یہ الزام ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے روایتی تعلقات کو کسی طرح زک پہنچائی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی مذکورہ کمیٹی قرارداد نمبر 1267 کے تحت کوئی 9 سال پیشتر قائم کی گئی تھی لیکن جب بھی وہ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے بیش رفت کرتی تو چین ہر مرتبہ اس کے راستے میں حائل ہو جاتاکیونکہ وہ کسی صورت یہ پسند نہیں کرتا تھا کہ پاکستان کسی طرح اس کی زد میں آئے اور یوں اس سلسلے میں ہونے والی ساری پیش رفت بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی اور سب کچھ ٹھپ ہو کر رہ جاتا۔ امریکہ اور بھارت نے گزشتہ مئی میں اس بارے میں اپنی سفارتی کوششوں میں تیزی لانے کا آغاز کیا اور اپنی جدوجہد کو نہایت مربوط طریقے سے آگے بڑھانے میں لگے رہے
امریکہ ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کو کس طرح نظر انداز کر سکتا تھا اس لئے اس نے اپنی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کو بھارت کے ہنگامی دورے پر روانہ کر دیا جہاں سے واپسی پر وہ 4 دسمبر کو اچانک اسلام آباد وارد ہوئیں اور صدر زرداری سے ایک اہم ملاقات میں دوٹوک انداز میں دہشت گردی کے خلاف نئی دہلی سے مکمل، شفاف اور عملی تعاون کی خواہش کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان اپنے دوست ملک چین سے سلامتی کونسل کی دہشت گردی کے خلاف قرارداد پر کئی ماہ سے لگایا گیا ٹیکنیکل ہولڈ ختم کرنے کے لئے کہے تاکہ اس قرارداد کے پاس ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔
اس امریکی مطالبے کی پذیرائی اس رنگ میں ہوئی کہ ایوان صدر سے چین کو فوراً یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی خاطر لگایا گیا ”ٹیکنیکل ہولڈ“ ہٹا لے، سو چین نے اگلے ہی روز یعنی 5 دسمبر کو اپنے سفارتکاروں کو یہ ہدایت کر دی کہ وہ اس پابندی کو جاری و ساری رکھنے کے سلسلے میں کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔ 6 اور 7 دسمبر کو اقوام متحدہ میں ہفتہ وار تعطیل تھی اور پھر پاکستان کے سفارتی مشن کو 7دسمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے حقوق انسانی کے ایوارڈ کی وصولی کی تیاریاں بھی کرنی تھیں اس لئے وہ ادھر جُت گیا اور سلامتی کونسل کی کمیٹی کے سیکرٹریٹ کا عملہ اس قرارداد کو بغیر کسی ادنیٰ رکاوٹ کے پاس کرانے کے لئے متحرک رہا اور چونکہ اب کسی بھی رُکن ملک کو اس پر کوئی اعتراض نہیں رہا تھا اس لئے اسے متفقہ فیصلے کے طور پر جاری کر دیا گیا۔
یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ پاکستان کی جانب سے چین سے ٹیکنیکل ہولڈ ہٹا لینے کی جو درخواست کی گئی اس کا نہ تو وزارت خارجہ کو کوئی علم ہوا اور نہ ہی نیو یارک میں پاکستانی مشن کو اس کی کوئی خبر ہو سکی اور سب کچھ مبینہ طور پر امریکہ اور ایوان صدر کے درمیان بالا بالا ہی طے کر لیا گیا۔
چین نے ہمیشہ دوستی کی پاسداری کی ہے..
آپ نے ٹھیک کہا یہی لوگ ننگ دیں ننگ قوم اور ننگ وطن ہیںاور ان کا شجرہ نصب لازمی میر جعفر اور میر صادق سے جا کر ملتا ہو گا۔
یہ تو وہ بات ہے جی کہ لوٹ مار زندہ باگ یا پھر ناچ نجانے بینگن لنگڑا
زورداری صاحب سے آپ اس سے بڑھکر کیا تواقع کیئے ہوئے ہیں؟
عبدالقدوس صاحب
ناچ نہ جانے ۔ آنگن ٹیڑا
قبلہ مجھے معلوم ہے میں نے حضرت سنیاسی حکمرانوں کی بات کی ہے کہ ان کا حال کچھ یوں ہے
عبدالقدوس صاحب
دل میلا نہ کیجئے ۔ میں نے مذاق کے طور لکھا تھا
ہمارا صدر اپنے باپ کا نام بھی دے دیتا تو اچھا تھا- اس پر بھی ایسی بےغیرت اولاد پیدا کرنے پر پابندی لگ جاتی-
محترم بھوپال صاحب
اسلام و علیکم
اب مجھے سمجھ میں آ گیا ہے کہ فوج کن حالات میں مارشل لا لگاتی ہے۔
ابھی تو زرداری اور فوج نے قوم کو حلوہ کھانے میں لگایا ہوا ہے، وقت پڑنے پر یہ صدام اور اسکی فوج کی طرح غائب ہو جائیں گے۔
اس کا کوئی حل بھی ہے یا ہم یونہی باتیں کرتے رہیں گے۔
اسلام علیکم اجمل صاحب
آپ کی دونوں تحریریں پڑھ کر دل تو خون کے آنسوؤں روتا ہے کے اب کیا بنے گا اس ملک کا اس لے کے ان لوگوں کا نہ کوئی دین ہے نہ مذہب یہ تو بس ملک کو لوٹنے میں گلے ہوئے ہے اور ہر جگہ سے قرضہ مانگ کر پیسہ بنا کر بھاگ جانے والے ہیں ۔
اور یہ آخر ہے پیپلزپارٹی کا ۔
صدام حسین کو خود کے نمک حراموں کو نمک کھلانے کی سزا ملی۔
میں نہیں مانتا کہ خراب انجام خراب اعمال کی نشانی ہے۔ ورنہ نیک لوگ تل تل کر نہ مرتے اور جرائم پیشہ عزت کی موت۔
مسئلہ یہ ہے کہ کمینہ عام آدمی طاقت کو سلام کرتا ہے۔ مسلمان زیادہ تر عام آدمی ہیں۔
شکاری صاحب
ہم لوگ صرف باتیں ہی تو کرتے ہیں ۔ اگر اپنی ہی باتوں پر عمل کرتے تو آج اس نوبت کو نہ پہنچتے ۔ میں ای سے زیادہ مرتبہ حل تجویز کر چکا ہوں لیکن سب یہی سمجھتے ہیں کہ باتیں صرف کرنے کیلئے ہوتی ہیں عمل کیلئے نہیں ۔ اگر ہم اپنی پائیدار بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو اور عمل کو اپنی گفتار کے مطابق بنانا ہو گا
اکرام صاحب
آپ کا اندیشہ درست ہے ۔ پیپلز پارٹی تو ختم ہو چکی ہے اب زورداری پارٹی ہے جس پر بھٹو کا لیبل لگایا ہوا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان ہی کو نہیں بلہ اُس کے تمام رشتہ داروں کو بھی ختم کیا جا رہا ہے
اُردودان صاحب
میں کہا کرتا ہوں مسلمان ہیں کہاں ؟ صرف معدودے چند ہیں باقیوں نے تو صرف لیبل لگا رکھا ہے ۔علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا ۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مسلم ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
محترم و مکرم افتخار صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ؔآپ کے خیالات پڑھ کر ہمیشہ ہی دل سے آواز آتی ہے۔۔۔گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
بھارت نے ممبئی میںپاکستان دہشت گردی کا مرتکب قراردے دیا،تو پاکستان کی قیادت نے حسب روایت بزدلی کا مظاہرہ کیا۔حکومتی ارکان نے بعض ایسے بیانات جاری کیے اور ایسے اقدامات کیے جن سے پاکستان ناکردہ گناہ کا اعتراف کرتا نظر آیا۔بھارتی میڈیاجھوٹے پروپیگنڈے کی قوت سے پاکستان کو دیوار سے لگانے میں کامیاب ہوا جب کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھارتی جھوٹ کا پول کھولنے میںکم دلچسپی لی۔سرکاری میڈیا نے تو اپنی ذمے داری محسوس ہی نہ کی’حالانکہ بھارت کا سارا کیس بودا تھا۔یہ بات بڑی آسانی سے ثابت کی جا سکتی تھی کہ ممبئی دہماکوں کے اس ڈرامے کا پلاٹ بھارتی ایجنسیوں نےلکھا اورانہوںنے ہی اس کو ڈائرکٹ بھی کیا۔
ممبئی کے سانحے کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان بالکل تیار نہ تھا،جب کہ بھارتی ایجنسیاں اسے انجام دینے کے بعد باقاعدہ منصوبے کے تحت اس کا الزام پورے شد ومد کے ساتھ پاکستان پر لگانے کی ریہرسل کیے ہوئے تھیں۔یہی وجہ ہے کہ اس سانحے کا تمام تر نقصان پاکستان کو یا بھارتی مسلمانوںکو ہوا۔ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کے لیے ممبئی دھماکے شروع سے آخر تک خسارا ہی خسارا تھے۔دراصل پاکستان کے عالمی دشمن چاہتے تھے کہ اسے ایک ناکام اور غیر ذمے دار ریاست ثابت کیا جا سکے۔صرف اسی طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہاتھ ڈالا جا سکتا تھا؛چنانچہ حسب توقع بلی تھیلے سے باہر آگئی۔امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پرگرام کی بولی بھی ۔ دی لگا جانی نقصان کے لحاظ سے بھی دیکھیں،تو ممبئی میں مارے گئے دو سولوگوں میں اسی سے زیادہ مسلمان تھے۔اس کا الزام پاکستان پر عاید کر کرنے کا بنیادی فائدہ امریکہ نے حاصل کیا۔نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کو بلیک میلنگ کا نشانہ بنانے اور اس پر دباؤ جاری رکھنے میں کامیاب ہوا جس میںاب بھارت سے بھی مدد لے سکے گا۔اس جھگڑے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کا ایران سے گیس پائپ لائن کا مشترکہ منصوبہ کھٹائی میں پڑگیا ہے جو امریکہ چاہتا تھا۔ممبئی سانحے کا فائدہ بھارت کی انتہا پسند جماعتوں کو ہوگا جو آنے والے انتخابات میں پاکستان کے خلاف نفرت کو انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے کامیاب ہونے کی کوشش کریں گی۔اس بارے میں بھارتی میڈیا کو پاکستان کے خلاف فضا بنانے کے لیے پہلے ہی بریف کر دیا گیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ہوٹلوں کے اندر ہونے والی قتل و غارت گری کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتاتھا۔کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ ایک بہت بڑے ملک کی فوج،کمانڈوز،پولیس اور ایجنسیاں مل کر کارروائی کریں،مگر تین دن تک دس افراد پر قابو نہ پا سکیں۔سارے تفتیشی ادارے تحقیق و تفتیش کررہے ھوںاور کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ دشمن کون ہے اور کہاں ہے؟جتنے بھونڈے انداز میں دہشت گردوںکو روکا گیا ان سے تو صاف لگتا تھا کہ خود ان پولیس والوں میںبہت سے لوگ ان حملوں میںملوث تھے۔
بار بار مطالبے کے باوجود پاکستان کو کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا گیا۔ جبکہ بھارت کے ہم نوا ممالک بشمول برطانیہ و امریکہ وغیرہ پاکستان سے تو اصرار کرتے رہے کہ پاکستان”Do more boyَ ”پر عمل جاری رکھے،لیکن بھارت سے ثبوت لانے کا مطالبہ نہ کیا۔تاہم بھارت کو جنگ سے باز رکھنا بھی ضروری تھا،تاکہ پاکستان سے امریکہ جو کچھ نچوڑ سکتا ہے؛خوف زدہ رکھ کر نچوڑ لے؛لیکن پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو معاملہ امریکا کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔انھیں بھی پتہ ہے کہ ممبئی حملے پاکستان کے خلاف بھارتی سازش ہے۔اس کے باوجودپاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اور ان تمام ممالک کے مفادات پاکستان کے خلاف ایک ہو گئے ہیں اور پاکستان پر شدید دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔دباؤ کا مقابلہ دباؤ ہی سے کیا جاسکتا ہے۔پاکستانی حکومت میں اگر دم خم ہوتا تو مغربی طاقتوں سے کہہ سکتے تھے کہ جناب والا بہت ہو گیا آپ نے بھی اگر بھارت کا ہی ساتھ دینا ہے تو ہم اس دہشت گردی کی جنگ سے باز آتے ہیں،مگراس کے لیے جرآت کردار کہاں سے آئے۔یہ تب ہو سکتا تھا اگر اپنے ہی شہری بیچ کھانے کی اور بیٹیوں کے دام کھرے کرنے کی روایتیں اور مثالیں قائم نہ کر چکے ہوتے۔ہماری حکومت میں شامل لوگ اپنے ذاتی مفادات اور اپنی جانوں کوملکی مفادات اور ملکی غیرت پہ مقدم نہ سمجھتے۔
بھارت نے ایک مسلمان وزیر عبدالرحمن انتولے کو اس لیے نکال دیا کہ اس نے ایوان میں خطاب کے دوران کہہ دیا تھا کہ ہیمنت کراکرے کا قتل بھارتی ایجنسیوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا ‘سوال یہ ہے کہ ہم نے یہ سوال کیوں نہ اٹھایا؟ہمارے میڈیا نے بھارتی حکمرانوں سے یہ کیوںنہ پوچھا کہ مہاراشٹرانسداد دہشت گردی اسکواڈ(اے ٹی ایس) کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو اتنی آسانی سے کیسے قتل کر دیا گیا؟یہ بات تو بھارتی میڈیا میں بھی اٹھائی گئی تھی کہ ہیمنت کراکرے،پولیس کمشنر اشوک کامٹے اور انکاؤنٹر سپیشلسٹ وجے سالسکر کا قتل پر اسرار ہے۔یقینا ان کا جرم یہ تھا کہ یہ لوگ حالیہ ممبئی دھماکوں سے بہت پہلے پیشہ ورانہ دیانت اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنگھ پریوار کے پورے فسطائی کلچر اور خون آشام چہرے کو منظرعام پرلے آئے تھے۔بھارتی عوام کے سامنے ہندوبلوائیوں کی دہشت گردی کو عریاں کر دیا گیاتھا ۔ اس سے فرقہ پرست قوتوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ان باضمیر او رباغیرت پولیس افسر وں نے سادھوی پرگیہ،اچاریہ دیانند پانڈے کو بے نقاب کیا تھا۔وہ حاضر سروس فوجی افسرکرنل پروہت، وشو اہندوپریشد کے توگڑیا،جرائم کی دنیا کے ایک بڑے سرغنہ چھوٹا راجن،سابقہ گورنر جموں کشمیر ریٹائرڈ جنرل سنہا اور دوسرے کرداروں کے بنائے ہوئے خوف ناک منصوبے کی تہہ تک پہنچ چکے تھے اور اب پوری دلجمعی اور انہماک کے ساتھ اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہے تھے۔اب اسی حوالے سے سنگھ پریوار کے کچھ سیاسی چہروں کی نقاب کشائی بھی متوقع تھی۔یہ حقائق سامنے لائے جا چکے تھے کہ سنگھ پریوار کی ذیلی شاخیںبھونسلہ ملٹری اسکول اور ابھنیو بھارت جیسے اداروں میں ہندو نوجوانوں کو سابقہ فوجی افسروں کے ذریعے کس طرح بم بنانے اور اسلحے کے استعمال کی تربیت دلاتے تھے۔ کیسے مسجدوں کے سامنے، بھیڑ بھاڑ والے علاقوں اور ریل گاڑیوں پر بم دھماکے کراتے اور پھر الزام سیمی،مسلم مجاہدین،لشکرطیبہ، حتیٰ کہ حزب المجاہدین پر لگا کر اپنے خونیں چہرے چھپالیتے تھے۔ مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس پر ہونے والے بم دھماکوں کی تحقیقات نے ان ہندوفرقہ پرست تنظیموں کے سازشی کردار کو پوری طرح ایکسپوز کر دیا تھا۔کرنل پروہت کی گرفتاری نے فوج کے سازشی کردار پر سوالیہ نشان لگادیا تھا۔اس تفتیش سے اور بھی کئی سربستہ راز افشاء ہورہے تھے۔معلوم ہوا تھا کہ بھاجپا اور آر ایس ایس کی کئی مقتدر شخصیتوں کے دامن بھی داغ دار ہیں۔ بہت کچھ اور چونکا دینے والا اور ناقابل یقین برآمد ہورہا تھا اور جوں جوں تفتیش کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا تھا، اے ٹی ایس کے سربراہ کراکرے کو دھمکیوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا تھا۔ ہیمنت کراکرے کو ہاتھ واپس کھینچنے ورنہ سخت نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنے کو کہا جا رہاتھا۔