امریکی حکمرانوں کی نام نہاد “دہشتگردی کے خلاف جنگ” میں وطن عزیز کی حکومت کی شمولیت کے باعث پچھلے پانچ سال میں کئی ہزار شہری ( عورتیں ۔ بوڑھے ۔ جوان اور بچے ) ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوچکے ہیں ۔
مزید اس جنگ کے نتیجہ میں وطن عزیز معاشی لحاظ سے انحطاط کی عمیق کہرائی میں پہنچ چکا ہے ۔ بالآخر وزارت خزانہ نے اپنی ایک دستا ویز میں اعتراف کیا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے ملکی معیشت کو حالیہ پانچ برسوں میں تقریباً 21 کھرب ( 2100 بلین ) روپے یعنی 28 بلین امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔
وزارت خزانہ کی دستاویز کے مطابق دہشتگردی کے خلاف جاری عالمی جنگ سے پاکستان کی معیشت کو جولائی 2004 تا جون 2005ء میں 260 ارب روپے نقصان ہوا ۔ جولائی 2005 تا جون 2006ء میں 301 ارب روپے ۔ جولائی 2006 تا جون 2007ء میں 361 ارب روپے ۔ جولائی 2007 تا جون 2008ء میں 484 ارب روپے اور جولائی 2008ء سے اب تک 678 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے
اس دستاویز کے مطابق اس عالمی مہم کی وجہ سے پاکستان کے کریڈٹ رسک میں بہت اضافہ ہوا ۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں مہنگے قرضے لینا پڑے ۔
وزارت خزانہ کے مطابق ان حالات کے باعث امن و امان کی خراب ترین صورتحال بھی درپیش رہی اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں جن علاقوں میں کارروائی کی گئی ان علاقوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا جبکہ مسلسل بم دھماکے ۔ امن عامہ کی خراب ہوتی ہوئی صورتحال اور مقامی آبادی کی نقل مکانی سے ملک کی معاشی و سماجی صورتحال بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔
تاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے گیارہ ستمبر کا واقعہ پیش آنے کے بعد پاکستان کو سیکیورٹی فورسز کیلئے مختص بجٹ کو بھی مسلسل بڑھانا پڑا۔
عوام کے پاس ووٹ ہوتا ہے تبدیلی کے لئے اور جو تبدیلی عوام لائے ہیں ہمیں اسکا احترام کرنا چاہئے۔
پھر کہوں گا۔ شیدا ٹلی صحیح کہتا ہے، عوام نے ووٹ دیئے ہیں تو اب بھگتے بھی
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
مذہبی انتہا پسندی جس کی طرف اکابرین ملت مثلا علامہ اقبال اور قاید اعظم وغیرہ اشارہ کرتے رہے ہیں اس کے خاتمے کی طرف بعد کی حکومتوں اور عوام نے کوی توجہ نہیں دی بلکہ اس کو عین اسلام سمجہ کر سینے سے لگایا۔ آج وہ پوداعفریت بن چکا ہے اور پلٹ کر اقتدار کی خاطر پاکستان پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ کیا تعجب کی بات نہیں کہ مذہبی جماعتیں اس جنگ میں سواے زبانی جمع خرچ اور حکومت پر تبرا بھیجنے کو ی عملی قدم نہیں اٹھاتیں۔ میں آج کھل کر واضح کہ رہا ہوں کہ جماعت اسلامی ایک فاشٹ سیاسی جماعت ہے اور موجودہ صورتحال ان کی امنگوں کی عین ترجمان ہے۔ پاکستان اور افواج پاکستان کی کمزوری ان کی قوت ہے۔ فوج امریکی حملوں سے نمٹ سکتی ہے۔ مگر جب اپنی پشت پر اس عفریت کو جو دشمن کے مقا صد کا آلہ کار بن رہا ہے کو دیکھتی ہے تو مناسب سمجھتی ہے کہ پہلے اس کی عسکری قوت کو جو کہ اغیار کے دین ہے کو توڑ دیا جاے۔ اس کے بعد اس امریکہ اور یہود کےخلاف اس معرکے کو جو پاکستان کا مقدر بن چکا ہے دو دو ہاتھ کیے جاییں۔
جب اسلامی جماعت وجود مین آیّ تھی تو سیاسی نھین تھی
مولانا مودودی رحمھ اللہ کا اندازہ اس معاملے مین درست نھین تھا
اسے ایک اصلاحی تحریک ھی رھنا چاھیے تھا
ممکن ھے میراتجزیھ غلط ہو مگر مین نہ پہلے تھا اور نا اب ممبر ہون لیکن جماعت اور مودودی لٹریچرپڑھتا رھا ھون اس سے زیادہ میری واقفیت نھین
میرے ناقص خیال مین انتھا پسندی کو دوسرے لوگون نے اپنے فاعدے کے لیے استعمال کیا ھے اور کر رھے ھین اس وجھ سے انھین شہ ملی ھے
بھائی وہاج الدین احمد صاحب
میں آپ کے خیال سے متفق ہوں ۔ میرے علم کے مطابق سیاست میں آنے کے باوجود مودودی صاحب نے کوئی غلط رویہ اختیار نہیں کیا تھا ۔
محترم بھوپال صاحب
میں کیا عرض کروں گا آپ مودودی صاحب کے رسالے ترجمان القرآن کے 1939،1940 اور 1941 کے شمارے کسی لایبریری میں سے اٹھا کر مطالعہ کر لیں ۔ قاید اعظم اور علامہ اقبال کو اور دشمنوں کی بھلا کیا ضرورت تھی جب ایسے موجود تھےبس اتنا اشارہ کر دوں کہ تحریک پاکستان کے دنوں میں مطالبہ پاکستان کو زہر ملا حلوہ کہتے تھے۔ مودودی مرحوم نے قیام پاکستان کے بعد کشمیر میں جاری جہاد کشمیر کو غیر اسلامی قرار دیا چنانچہ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایوب نے ان کو اوپن آفر دی کہ سب فرقوں کے ساتھ مل ایک متفقہ اسلامی نظام بنا دیں تو میں آنکھیں بند کر کے اس پر دستخظ کر دوں گا۔ موصوف نے پہلے تو مان لیا مگر کچھ عرصہ کے بعد یہ کہ کر الگ ہو گیے کہ ایسا آیین بنانا نا ممکن ہے۔ یحیی جیسا جرنیل جس کے ماتھے پر بد بختی کی مہر ساری قوم کو نظر آ رہی تھی جماعت اسلامی نے اس سے توقع کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی نظام نافذ کریں گے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ خود اس سے معذوری کا اظہار کر چکے تھے نہ صرف یہ بلکہ جماعت کے لے 75 لاکھ کے فنڈ یحیی سے حاصل کیے۔ جماعت اسلامی کے بانی کا فلسفہ فاشسٹ تحریکوں مثلا فاشی ،نازی اور کمیونسٹ تحریکوں کے ماڈل سے متاثر تھا اور آج بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام صرف اقتدار سے نافذ ہو سکتا ہے۔ مودودی کی کتاب اسلام کا نظام سیاسی میں انہوں نے خود ان تحریکوں کو نمونہ قرار دیا ہے۔ میں یہ سب باتیں ہوا میں نہیں کر رہا سب ریکارڈ پر موجود ہے۔ کیا آپ کو اس بات حیرت نہیں ہوتی کہ یہ مذہبی جماعتیں زبان سے تو اسلام کی بات کرتیں ہیں مگر پاکستان میں ہر ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے میں پیش پیش رہتی ہیں جس کی نہ قانون اجازت دیتا ہے نہ اسلام- تازہ مثال جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے کی ہے۔ جس نے اس معاشرے میں مکروہ اقدار کو فرغ دیا اور اب تک اس نظام کا تسلل باقی ہے۔ آج بھی شمالی شورش پر یہ جماعتیں واضح موقف اختیار نہیں کر رہیں۔ جب پاکستان کا سواد اعظم فوج کی قومی نمایندوں کی بریفنگ کے موقع پر دل ہی دل میں خدا سے دعاییں مانگ رہا تھا کہ نمایندے کوی متفقہ فیصلہ دیں جس سے اسلالم اور پاکستان کو تقویت ملے۔ یہ جماعتیں یہ کہ کر الگ ہو گییں کہ انیہیں سب کچھ پہلے ہی معلوم ہے۔ آپ نے دیکھا کہ قوم کے سواد اعظم نے درست قرار داد پاس کی۔ مگر یہ اس قرار داد سے الگ رہ کر کس کو خوش کر رہے ہیں؟۔
امریکہ کو یہ ہر وقت دشنام دیتے ہیں مگر ان کے اپنے بچے امریکہ میں رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے مودودی صاحب نے اپنی تحریروں میں بوقت ضرورت جھوٹ کی اجازت دی ہے۔ اور مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کا ذکر کر کے میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع نہیں کروں گا۔
میں نہ کسی جماعت کا ممبر ہوں اور نہ مجھے ذاتی طور ان اصحاب سے کوی پر خاش ہے مگر جب پیارے پاکستان کی بات آتی ہے اور اس کو کوی نقصان پہنچانے والوں کا بازو بنتا ہے تو احتیاط کا دامن چھوٹ جاتا ہے خالد شیخ محمد کس کے گھر سے گرفتار ہو تھا؟ اور کیا القایدہ پاکستان کی دوست ہے؟۔ اگر یہ جماعت چاہتی تو غریب عوام کی قسمت بدل سکتی تھی مگر ہوس اقتدار نے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ان سے تو ایدھی اچھا ہے اپنی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود تمام انسانیت کی خدمت میں نمبر لے گیا۔ اور توشہ آخرت کا حقدار ٹھرا-
محمد ریاض شاہد صاحب
میں 1958ء تک جماعتِ اسلامی کے مخالفین میں شامل تھا ۔ 1953ء میں مودودی صاحب کو جہاد کشمیر کی وجہ سے قید نہیں کیا گیا تھا بلکہ ختمِ نبوت تحریک چلانے کی وجہ سے قید کیا گیا تھا ۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے اندر جو جہاد شروع دن سے جاری ہے اس میں جماعت اسلامی شامل ہے ۔ بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے اور اس موضوع کا میری 17 نومبر کی تحریر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اسلئے میں مزید کچھ لکھنا نہیں چاہتا
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
جس گرفتاری کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اکتوبر 1948 کو ہوی تھی۔ اگر آپ اس کی تاریخ سے آگاہ نہیں تو غالبا آپ جہاد کشمیر کی تاریخ سے آگا ہ نہیں۔
آپ نے دہشت گردی کے نقصانات کا ذکر کیا تھا تو لا محالہ اس کے بنیادی کرداروں کے فلسفہ اور تاریخ کے بغیر ہم اسے سمجھ نہیں سکتے۔
آپ نے مزید اس پر کچھ لکھنے سے گریز کیا ہے تو اس کی یقینا کوی معقول وجہ ہو گی۔ مگر آج کا اخبار میں جماعت اسلامی نے اسلام آباد کا گھیراو کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی بجاے پارلیمنٹ اورمیڈیا میں اپنے موقف کی حمایت حاصل کی جاے
اس کا فیصلہ اب اسلام آباد کی سڑکوں پر غریبوں کے لہو سے ہو گاا۔ مجھے نہیں یاد کہ قاید اعظم نے کبھی اس طرح متشد دانہ کاروایوں کی قیادت انگریز کے خلاف کی ہو۔
آخر میں میں پھر واضح کر دوں کہ کہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جب بھی کو ی فیصلہ کرے گی وہ یقیناٰ اسی طرح درست ہو گا جس طرح مطالبہ پاکستان کا فیصلہ سب نے مل کر کیا تھا۔
محمد ریاض شاہد صاحب
ہوسکتا ہے کہ آپ کا علم بہت وسیع ہو لیکن آپ کی کچھ معلومات میری سمجھ سے باہر ہیں اور حقائق سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ اتنا میں ضرور کہوں گا کہ اگر میں جد و جہد آزادی جموں کشمیر کا درست علم نہیں رکھتا پھر آپ تو کیا کوئی اور انسان بھی اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا ۔
رہی جماعت اسلامی تو میں کبھی اس میں نہیں رہا صرف اس کے کچھ اراکان کو اچھا سمجھتا ہوں جن میں مودودی اور طفیل صاحبان شامل ہیں لیکن مودودی صاحب کے سیاست میں آنے کے فیصلے کو میں نے کبھی درست نہیں سمجھا کیونکہ میرے خیال میں کسی دینی جماعت کو سیاست میں اس لئے نہیں آنا چاہیئے کہ سیاست عملی طور پر جھوٹ اور فریب کا نام ہے ۔ میرے خیال کے مطابق تو جماعت اسلامی اس وقت فعال نہیں رہی تھی جب طفیل صاحب نے اس کی سربراہی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ۔
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
میں نے جان بوجھ کر آزادی کشمیر کے علم کے متعلق آپ کو چھیڑا تھا۔ تاکہ آپ کھل کر جواب دیں۔ مجھے علم ہے کہ ایک کشمیری کی کشمیر اور مسلہ کشمیر سے وابستگی کیا ہوتی ہے اور ایک کشمیری کو علم نہیں ہو گا تو اور کسے ہو گا۔ گستاخی پرمعذرت خواہ ہوں۔
السلام علیکم
افتخار انکل !
میں نے اکثر یہ نوٹ کیا ہے کہ لوگ قائدِ اعظم کے نظریات سے اختلاف کرنے والوں کا بڑی تحقیر سے ذکر کرتے ہیں اور شاید یہ سمجھتے ہیں کہ قائدِ اعظم سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی اور قائد نے جو فرما دیا وہ اس کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جو قائد کے نظریات سے الگ کوئی بات کرےگا تو راندہ درگاہ ہے۔
مجھے ایک نفیس اور اہل علم پولیس افسر کا جملہ ابھی بھی یاد ہے کہ اپنی کورس کی کتابوں کو پڑھ کر بچوں کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ نبی علیہ السلام زیادہ بڑی شخصیت تھے یا قائد اعظم (نعوذ باللہ)۔ نبی علیہ السلام پر ایک سبق اور قائد پر کئی ایک۔
نوٹ: میرا قائداعظم سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی میں ان کے مخالفین کا ہم خیال ہوں بس ایک عام تاثر کے بارے میں بات کی ہے۔
محترم سیفی صاحب
اسلام و علیکم
شکریہ۔ آپ اس نکتے کو آییندہ آنے والی پوسٹس میں ضرور اٹھاییں تاکہ سیر حاصل بحث ہو سکے۔
محمد ریاض شاہد صاحب
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سُوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
سیفی صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ آپ نے درست لکھا ہے ۔ گو میں قائد اعظم صاحب سے والہانہ عقیدت رکھتا ہوں ۔ جو وہ تھے بس اتنا ہی تھے ۔ انہیں غلط طور بڑھا چڑھا کر پیش کرنا میں ان کی توہین سمجھتا ہوں ۔