آج کے زمانہ میں لوگ ترقی تو بہت کر گئے ہیں اور دولتمند بھی ہو گئے ہیں مگر چہروں سے بشاشت غائب ہو گـئی ہے۔ اس دور میں مسخرے اور بھانڈ کی شائد زیادہ ضرورت ہے مگر اب کم از کم شہروں میں تو نظر نہیں آتے۔ ہماری نوجوان نسل نے تو شايد انہیں دیکھا بھی نہیں ہو گا۔
کیا مہارت ہوتی تھی ان میں ۔ محفل میں کتنا ہی افسردہ شخص کیوں نہ ہو ہنسے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ مسخرے اور بھانڈ کی شخصیت بھی عجیب ہوتی ہے ۔ بظاہر خوش اور لاپرواہ مگر اندر سے بعض اوقات غم کے مارے ہوئے ۔ مسخرے اور بھانڈ منافق نہیں ہوتے وہ تو اپنے بول اپنی حرکات اور چہرہ بھی صرف دوسروں کو خوش کرنے کے لئے بدلتے ہیں ۔
پرانی بات ہے ایک مسخرے سے پوچھا کہ اس نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا ؟ بولا ” اپنے غم تو دوسروں کو دے نہیں سکتا ۔ لوگوں کو ہنسا کر مجھے اپنے غم بھول جاتے ہیں”۔ مسخرے اور بھانڈ اپنی اصلیت چھپا کر دوسروں کی مسرت کا سامان کرتے ہیں اور اس لئے وہ منافق نہیں ہوتے
بلکل درست
مسکراتے تو ہمارے حکمران بھی ہیں بلکہ آپس میں مسکرا مسکرا کر باتیں کرتے ہیں معاہدے کرتے ہیں تو کیا یہ لوگ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مسخرے سٹیج ڈراموں سے زیادہ کما رہے ہیں اس لیے پارٹیوں سے غائب ہو گئے ہیں۔ مسخرے کی باتیں فحش ہوتی ہیں تو پھر برا لگتا ہے۔ ویسے آپ کی باتیںٹھیک ہیں یعنی اب ہنسی ختم ہوتی چکی ہے اور ہنسنے ہنسانے کی زیادہ ضرورت ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ بھی منافقت کی ہی ایک شکل ہے کہ انسان اندر سے رنجیدہ یا غم کا مارا ہو مگر دوسروں کو خوش کرنے کے لیئے خوشی کا تاثر دے ۔ یا جیسے کوئی اندر سے بہت خوش ہو مگردنیا کو دوسرا تاثر دکھا کر باہر سے غم زدہ دکھائی دے ۔ یعنی اپنی اصلیت کے برعکس کوئی دوسرا رویہ ظاہر کرے تو یہ منافقت ہی ہوگی ۔ بلکل اسی طرح جب کوئی کسی کی غیر موجودگی میں کسی کی برائی کرتا ہے تو غیبت کہلاتی ہے اور اگر کوئی کسی کی غیر موجودگی میں کسی کی ایسی اچھائیوں کا ذکر کرے جو اس غیر موجودہ شخص میں منقود ہے تو یہ بھی غیبت کہلائے گی ۔
مسخرے اور بھانڈ انعام و کرام اور پیسے کے لیئے یہ سب کرتے ہیں ۔ کسی کو خوش کرنے کے لیئے یہ کام فی سبیل اللہ انجام نہیں دیا جاتا ۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویہ تنقید کے دائرے میں آتا ہے ۔
مسخرے اور بھانڈ اب بھی موجود ہیں لیکن کم تعداد میں۔ میرے خیال میں یہ بادشاہوں نے پیشہ ایجاد کروایا ہے۔ درباروں میں درباری مسخرے رکھ رکھ کے ، کہ جب بادشاہ سلامت کا ہنسنے کا موڈ ہو تو مسخرہ حاضر ہو۔ اس کے علاوہ یہ بادشاہوں کی خوشامد اور چاپلوسی بھی کرتے تھے۔ اس لئے خوشامد کو رواج دینے والے بھی یہی ہیں۔ میرے خیال میں یہ زبان کا کھاتے ہیں ہاتھ کا نہیں اور ان کی کمائی۔۔۔۔۔۔۔ اب کیا کہوں؟
کامران صاحب
مسکراہٹ مسکراہٹ میں فرق ہوتا ہے اور آپ سب جانتے ہیں
:smile:
افضل صاحب
تھیئتر دیکھے مجھے پچیس تیس سال ہو گئے ہیں ۔ سنتا ہوں کہ دورِ حاضر میں تھیئٹر کی جگہ بدتہذیبی نے لے لی ہے
یون بھی کہ سکتے ھین کہ اب مسخرے بڑی بڑی کرسیون پر بیٹھنے لگے ھین
ھان بادشاہون کے ذکر سے ایک پرانی فلم یاد آیئ ڈینی کے کہنے لگا
کینگ آف جیسٹرز اینڈ جیسٹر آف کینگز
اب فلم تو یاد نھین مگر ایک فلم مین ریڈ سکیلٹن نے اسی چیز کوفلمایا ھے کہ مسخرون کی اپنی زندگی غمونکے بوجھ تلےدبی ھوتی ھے
پنجاب اور دوسرے علاقون مین بھانڈ ون )اور خسرون) کا عام طور پر شادی بیاہ کے موقعون پر پہنچنا ایک مانی ھوئی حقیقت تھی اور وہ اپنا حق لے کر ھی پیچھا چھوڑتے تھے اب بھی ایسا ھے مگر کم
یہ ایک پیشہ ھے اس لیئے منافق نھین مان سکتے لوگون کو خوش کرنا اور بات ھے اندر غم ھو یا نہ ہودوسرون کو خوش کرنے سے وہ اپنی خوشی کا اظہار نھین کر رہے ہوتےاس لیئے منافق کی تعریف مین نھین آتے
ظفری صاحب
معذرت خواہ ہوں ۔ میرے انٹرنیٹ کنکشن میں گڑبڑ ہو گئی تھی اسلئے جلد جواب نہ لکھ سکا ۔ میں نے جن مسخروں اور بھانڈوں کی بات کی ہے وہ دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئے ہیں ۔ وہ کام تو انعام کی خاطر ہی کرے تھے لیکن لوگ جو کچھ بھی دیتے اپنی خوشی سے دیتے اور سب دیتے بھی نہ تھے ۔ اپنے غم کو چھُپا کر چہرے پر مسکراہٹ رکھنا بڑا دِل گردے کا کام ہے اور منافقت نہیں ہے بلکہ عمدہ خاصیت ہے ۔ البتہ سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود روتے رہنا ناشکری ہے اور منافقت بھی ہو سکتا ہے
کسی کی عدم موجودگی میں کسی کی وہ خوبی بیان کرنا جو اس میں نہ ہو جھوٹ ہے اور جھوٹ منافقت کی بنیاد ہے
فائزہ صاحبہ
خوش آمدید ۔ درست کہ مسخرے درباروں میں بھی ہوتے تھے لیکن چاپلوسی مسخرے کا فرض نہیں تھا ۔ چاپلوسی مسخروں نے ایجاد نہیں کی بلکہ پڑھے لکھے عقلمند لوگوں نے اسے رواج دیا اور دورِ حاضر میں یہ خصوصیت عروج پر ہے ۔ چاپلوسی ابلیس کے اوصاف میں سے ایک اہم ہتھیار ہے جس سے وہ انسانوں کو بھٹکاتا ہے ۔ جہاں تک بھانڈ کا تعلق ہے یہ ایک بہت کارآمد ادارہ تھا ۔ یہ لوگ ہر برادری کے ساتھ ایک خاندان کے طور پر منسلک ہوتے تھے اور اس برادری کی بیاہ شادیوں اور مرگ پر بہت خدمت کرتے تھے جس کیلئے ان کا معاوضہ بہت ہی کم ہوتا تھا ۔
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
پاکستان میں ایک فلم بنی تھی جوکر ۔ اس میں مسخرے کی کہانی تھی ۔ پہلے وہ لوگوں کو ہنساتا ہے پھر جب اس کی اپنی کہانی شروع ہوئی توناظرین روتے ہوئے حال سے نکلے تھے ۔ یہ کچھ سچے واقعات کی فلم بندی تھی ۔
آپ نے اداکار ظريف کا نام تو سنا ہو گا جو پاکستان بننے کے بعد بہترین مسخرا اداکار تھا ۔ میں اس کی ذاتی زندگی سے کچھ واقف ہوں ۔ دکھوں سے بھری تھی مگر ذاتی زندگی میں بھی مرنے تک اس نے شکائت نہ کی
ایک لکھنے والے کی ایس این رائیٹر جو زماداری ہوتی ہے اس کا ہر پل اظہار آپ کی تحاریر میں ملتا ہے ۔
لوگ جہاں ہمارے فنون لطیفہ سے سیکھتے تھے ۔۔ مزاہ نگاری کا وہ علم پاکستان کی تاریخ کے ٹیلی ویزن پروگرامز میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔ جو حد تک اب ناپید ہو چکا ۔۔پی ٹی وی پر ایک پروگرام آتا تھا ۔۔ تعلیم بالغاع ۔۔ آپ نے ضرور دیکھا ہوگا۔۔ کاش کہ اس علم کو سہارا ملا ہوتا تو آج کا پرفارمنگ آرٹ بد تہزیبی و بے حیائی کے شکنجوں میں نا ہوتا ۔
ریحان صاحب
یہ ایک ڈرامہ تھا تعلیمِ بالغاں جو 1956ء میں لکھا گیا تھا اور مصنف کی وفات کے بعد ٹی وی ڈرامہ کے طور فلمایا گیا ۔ اب تو اس ڈرامہ میں حصہ لینے والے بھی فوت ہو چکے ہیں جن میں محمود علی اور سبحانی بایونس قابلِ ذکر ہیں ۔ اس ڈرامے کو سمجھنے کیلئے بھی ایکصحتمند ذہن کی ضرورت تھی ۔ اس کے علاوہ الف نون اور ففٹی ففٹی بھی اچھے مزاحیہ پروگرام تھے