کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک با ہمت اور خوددار لڑکے کودیکھ یہ تحریر لکھ رہا ہوں ۔ خودداری اور غیرت وہ صفات ہیں جو انسان کو بلند و بالا کر دیتی ہیں لیکن ہماری قوم ہولناک گہرے کھڈ کی طرف پھسلتی جا رہی ہے ۔ ہموطنوں نے خودغرضی کو غیرت کا نام دے دیا ہے اور وطنِ عزیز میں [جھوٹی] غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نے غیرت کا تصور ہی مسخ کر کے رکھ دیا ہے ۔
وطن عزیز میں ہمیں ہر گلی ہر سڑک پر بھکاری نظر آتے ہیں ۔ عورتیں مرد بچے ۔ جن کو اللہ تعالٰی نے کامل جسم کے ساتھ صحت بھی دی ہوتی ہے لیکن وہ محنت کرنے کی بجائے بھیک مانگتے ہیں ۔ ان کے مختلف عُذر ہوتے ہیں جو درُست بھی ہو سکتے ہیں ۔ کوئی اپنے آپ یا اپنے باپ یا ماں کو مریض بتاتا ہے تو کوئی ملازمت یا مزدوری نہ ملنے کا بہانہ بناتا ہے ۔
یہ عِلّت صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں بھی ہے مگر بھیک مانگنے کے طریقے مختلف ہیں ۔ مثال کے طور پر یورپ میں بھیک مانگنا چونکہ جُرم ہے وہاں بھکاری کوئی ساز لے کر بازار میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اپنے سامنے ایک کپڑا بچھا دیتا ہے اور ساز بجانا شروع کر دیتا ہے ۔ لوگ بھیک دینے کی بجائے اسے موسیقی کا نذرانہ دیتے ہیں گو سب جانتے ہیں کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے اور وہ بھیک دے رہے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ٹوپی اُلٹی کر کے خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور راہگذر اس میں کچھ ڈالتے رہتے ہیں ۔
اب بات اللہ کے خود دار اور غیرتمند بندوں کی ۔یہ لوگ جو کہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں بلند ہمت اور مضبوط قوتِ ارادی سے اپنی مجبوریوں پر فتح پالیتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر آدمی ماشاء اللہ اور سُبحان اللہ کہتے ہوئے اپنے اعضاء سلامت ہونے پر اللہ کا شکر ادا نہ کرے تو اَس جیسا بدقسمت کم ہی ہو گا
کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک لڑکے کو دکھایا گیا جس کے دونوں بازو کٹے ہوئے تھے اور وھ کٹے ہوئے بازوؤں کے سِروں میں قلم دبوچ کر لکھ رہا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین
دس بارہ سال قبل میں نے ایک ایسا شخص دیکھا تھا جس کے دونوں بازو کُہنیوں کے اُوپر سے کٹے ہوئے تھے اور وہ سلائی کا کام کرتا تھا ۔ ایک پاؤں سے وہ کپڑے کو قابو رکھتا اور دوسرےپاؤں سے سلائی کی مشین چلاتا جس میں بجلی کی موٹر نہیں لگی تھی ۔ وہ بائیسائکل بھی اس طرح چلاتا تھا کہ ایک پاؤں سے ہینڈل کو سنبھالتا اور دوسرے سے پیڈل کو گھماتا ۔ وہ پاؤں کی انگلیوں میں قلم پکڑ کر لکھ بھی لیتا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین
تقریباٌ اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گھر کے قریب ایک کباڑیے کی دکان تھی، اس پر ایک شخص کام کرتا تھا دونوں بازؤں سے معذور۔دن بھر ریڑھی چلاتا تھا اور شام کو آ کر دکان پہ سب بیچ دیتا تھا۔ کبھی کسی سے کچھ مانگتا تھا اور نہ ہی لیتا تھا۔ وہاں سے گھر چھوڑا تو بعد میں کبھی کبھار اسکوریڑھی لے کر کام کرتے دیکھا۔ تھوڑے دن پہلے اسکو دیکھا تو ایک چوک میں بیٹھا تھا سمجھ نہیںآئی کہ کیوں بیٹھا ہے؟ میں سمجھا شائد تھکن کی وجہ سے، ذرا بھی شائبہ نہ ہوا کہ مانگ رہا ہے۔بالکل چپ بیٹھا تھا کوئی سوال کر رہا تھا نا ہی کوئی آواز بلند۔ نا سامنے کوئی چادر پھیلائی ہوئی تھی نا کوئی برتن۔ پاس جا کر بات چیت کی توگھبرا گیا جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔ اس نے بتایا کہ تھوڑے عرصے پہلے تک کام کر رہا تھا پر اب عمر کا تقاضا ہے یا جسمانی قوت کا کہ کوئی کام نہیں ہوتا، ہم تین بھائی ہیں اور تینوں معذور ہیں۔ صرف میں ہی ہوں جو اس قابل تھا کہ کام کر لوں اور اب کچھ مانگ لوں باقی دو اس قابل بھی نہیں کہ مانگ ہی لیں۔
اسکے علاوہ ایک اور شخص کو جانتا ہوں جو بہت خوددار ہے لیکن بہت مستحق بھی۔
لیکن آپکی بات بالکل صحیح ہے کہ ہم سے خودداری اور غیرت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اسکی تازہ مثال یہ ہے کہ ہمارے کیانی صاحب کی وارننگ سے ڈر کر امریکہ نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر روٹین سے زیادہ بندے مار دیے ہیں اور ہمارے محترم وزیراعظم صاحب کا فرمان ہے کہ ” ہم امریکہ سے نہیں لڑ سکتے”
بانی پاکساتان محمد علی جناح ایک دفعہ نواب چھتاری کے ہمراہ موٹر کار میں جا ریے تھے تو ریلوے کراسنگ پر رکنا پڑا۔ اتنے میں ایک بھکاری نے آکر نواب صاحب کے سامنے دست سوال دراز کیا۔جب نواب صاب اس کی حاجت پوری کر چکے تو جناح صاحب نے فرمایا “کہ اس سے تو اچھا تھا کہ آپ یہ رقم کسی مدرسے کو دے دیتے۔ بھکاریوں کی حوصلہ افزای کرنا مناسب نہیں ہے”۔ میرے ذاتی خیال میں ہمارا معاشرتی رویہ ہے کہ ہم مانگنے والوں کو ہی دیتے ہیں اور نہ مانگنے والوں کو بھول جاتے ہیں۔