آؤ بچو ۔ سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر دی ہم نے قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد
آج آنے والی رات کو 11 بج کر 57 منٹ پر سلطنتِ خداداد پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے پورے 61 سال ہو جائیں گے ۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ میں آزادی کی سالگرہ مبارک تو ہر سال ہی لکھتا ہوں اور اب یہ الفاظ ہی حالات نے پھیکے پھیکے کر دئیے ہیں ۔ آزادی کے 61 سال بعد بھی ہم پسماندگی اور پریشانی کا شکار کیوں ہیں ؟ اس پر غور کر کے ہمیں اپنی خامیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جتنی جلد یہ خامیاں دور ہوں گی اتنی ہی تیز رفتاری سے ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمارے مُلک کو ہر قسم کی نعمت سے مالامال کیا ہے لیکن ہموطنوں کی ناسمجھی کی وجہ سے قوم تنزل کا شکار ہے ۔
اندرونِ وطن
سب حقوق کا راگ الاپتے ہیں اور حقوق کے نام پر لمبی لمبی تقاریر اور مباحث بھی کرتے ہیں لیکن دوسروں کا حق غصب کرنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ سڑک پر اپنی گاڑی میں نکلیں تو دوسری گاڑیوں میں سے اکثریت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح آپ سے آگے نکل جائیں یا آپ سے پہلے مُڑ جائیں ۔ چوراہے پر بتی ابھی سبز ہو نہیں پاتی کہ لوگ گاڑیاں بھگانے لگتے ہیں ۔ سڑک کے کنارے کھڑے کو کوئی سڑک پار کرنے نہیں دیتا
ہموطنوں کی اکثریت کو ہر چیز غیرملکی پسند ہے ۔ اپنے وطن کی بنی عمدہ چیز کو وہ حقیر جانتے ہیں اور دساور کی بنی گھٹیا چیز کو عمدہ سمجھ کر خریدتے ہیں ۔ کئی بار میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کوئی صاحب دساور کی بنی چیز زیادہ دام دے کر خرید لائے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے اور کم قیمت پر ملتی ہے ۔ مقامی دکاندار جب گاہکوں کی نفسیات تبدیل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے مال پر فرانس ۔ جرمنی ۔ جاپان یا چین کا بنا ہوا لکھوانا شروع کر دیا ۔ میں اور دفتر کا ساتھی بازار کچھ خرید کرنے گئے وہاں ایک چیز پر چینی یا جاپانی زبان میں کچھ لکھا تھا ۔ اتفاق سے قریبی دکان سے دو جاپانی کچھ خرید رہے تھے ۔ میرا ساتھی وہ چیز لے کر ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا یہ جاپان کا بنا ہوا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ لکھا ہے پاکستان کا بنا ہوا
ملبہ یا کُوڑا کرکٹ بنائی گئی جگہ کی بجائے اپنے گھر کے قریب جہاں بھی خالی پلاٹ یا جگہ ہو وہاں انبار لگا دینا اپنی خُوبی سمجھا جاتا ہے ۔ قومی یا دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا شاید بہادری سمجھا جاتا ہے اور بجلی کی چوری کئی ہموطنوں کی فطرت ہے اور وہ اسے اپنی عقلمندی یا چابکدستی سمجھتے ہیں ۔ دکاندار مال کا عیب گاہک کی نظروں سے اوجھل کر کے عیب دار مال بیچتے ہیں
میرے ہموطن ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں پاکستان میں کیا رکھا ہے ؟ یا کہہ دیں گے یہ بھی کوئی ملک ہے ۔ اپنے ہموطنوں کے متعلق کہیں گے کہ سب چور ہیں ۔ اس وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے آپکو بھی چور کہہ رہے ہیں
بیرونِ وطن
بیرونِ وطن ہموطنوں کی اکثریت بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو نیچا دِکھانے پر تُلے رہتے ہیں ۔ گو اپنا یہ حال کہ عمر برطانیہ میں گذاری مگر صحیح انگریزی بولنا اور لکھنا نہ سیکھا ۔ سعودی عرب میں بیس پچیس سال رہے اور قرآن شریف صحیح طور پڑھنا نہیں آتا ۔
ایک صاحب جو برطانوی شہری ہیں پاکستان آئے ۔ ایک پتلون مجھے دکھا کر کہنے لگے “یہ میں نے لندن سے خریدی ہے ۔ ایسی اچھی کوئی پاکستان میں بنا سکتا ہے ؟” میں نے پتلون پکڑ کر دیکھی تو خیال آیا کہ یہ کپڑا تو وطنِ عزیز میں ملتا ہے ۔ میں نے پتلون بنانے والی کمپنی کا نام ڈھونڈنا شروع کیا ۔ پتلون کے اندر کی طرف ایک لیبل نظر آیا جس پر انگریزی میں لکھا تھا “پاکستان کی بنی ہوئی”۔
کچھ سالوں سے ایک نیا موضوع مل گیا ۔ “پاکستان خطرناک مُلک ہے ۔ وہاں روزانہ دھماکے ہوتے ہیں ۔ جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے”۔ جس کو دیکھو وہ ہر باعمل مسلمان کو دہشتگرد قرار دے رہا ہے ۔
میں پاکستان سے باہر درجن بھر ملکوں میں گیا ہوں اور آٹھ دس دوسری قوموں سے میرا واسطہ رہا ہے ۔ میں نے کسی کے منہ سے اپنے ملک یا قوم کے خلاف ایک لفظ نہیں سُنا لیکن جس ملک میں بھی میں گیا وہاں کے پاکستانی یا جن کے والدین پاکستانی تھے کو پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف وہاں کے مقامی لوگوں کے سامنے باتیں کرتے سنا ۔
کاش ہموطن ایک قوم بن جائیں اور ہم صحیح طور سے یومِ پاکستان منا سکیں
بیرونِ وطن والی باتیں تو بالکل درست کہیں۔۔ :sad:
لیکن بہت سے محبِ وطن ابھی باقی ہیں۔ جو نہ ملک کے خلاف کرتے ہیں اور نہ ہی سنتے ہیں۔ :neutral:
ماوراء صاحبہ
میں نے لفظ اکثریت استعمال کیا ہے یعنی 50 فیصد سے زیادہ