ملک میں پہلی بار کسی کو ملک کا آئین ملیامیٹ کرنے کی پاداش میں عدالت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر کچھ لوگ سراپا احتجاج ہیں جن کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف دیانتدار اور ملک و قوم کا خیر خواہ تھا اُس کے ساتھ ظُلم ہو رہا ہے ۔ مُلک و قوم کے ساتھ اُس نے جو کیا اُس کا خمیازہ تو ملک و قوم یہی نہیں کہ صرف دہشتگردی ۔ ڈرون حملوں ۔ بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں بلکہ مستقبل میں خدا نخواستہ قحط کی صورت میں بھی بھگتنے کا بندوبست کرنے میں پرویز مشرف نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی
پرویز مشرف کی مالی دیانتداری (لُوٹ مار) کی جھلک بعد میں ۔ پہلے پرویز مشرف کے جھوٹ ۔ قوم و مُلک کو داؤ پر لگانے والی خودغرضی ۔ وسیع اور دیر پا قومی نقصانات پہنچانے کے چند نمونے
حکومت پر قبضہ کے وقت پرویز مشرف نے یہ تاثر دیا تھا کہ وہ کشمیر آزاد کرانا چاہتا تھا اور نوازشریف نے کشمیر کا سودا کردیا ۔ اسلئے نوازشریف کو حکومت سے نکالا گیا ۔ لیکن خود عباس سرفراز خان نامی شخص کو وزیر امور کشمیر بنا دیا جس کے کاروباری مفادات بھارت سے وابستہ تھے
” آپ تینوں میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہو گا کہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے احکامات جاری کرے۔ میں آپ تینوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں، جنرل محمود، جنرل عزیز اور شاہد عزیز آپ“۔ جنرل مشرف نے میٹنگ ختم کرتے ہوئے ہمیں اس سلسلے میں با اختیار کیا اور ذمہ دار ٹھہرایا
”یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی وجہ سے آپس میں آپ لوگوں کا رابطہ نہ ہو سکے یا کوئی دشواری پیش آجائے تو پھر بھی کارروائی میں رُکاوٹ نہ پڑے“۔
یہ کہہ کر وہ (مشرف) کھڑے ہو گئے۔ شاید یہ بات اس لئے بھی کہی ہو کہ کوئی ایک شخص آخری وقت پر پیچھے ہٹنا چاہے تو بھی کارروائی نہ رکے۔ ہم سب نے انہیں الوداع کہا اور اپنے گھروں کو لوٹ آئے
(مشرف کی) سری لنکا جانے سے پہلے یہ آخری ملاقات تھی۔ فیصلہ یہ تھا کہ اگر اُن (مشرف) کی غیر موجودگی میں نواز شریف صاحب اُنہیں فوج کے سربراہ کی کرسی سے ہٹانے کی کارروائی کریں تو فوری طور پر حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ کئی دنوں سے اُن (مشرف) کے گھر پر اس سلسلے کی ملاقاتیں جاری تھیں۔ ان ملاقاتوں میں میرے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل محمود، کمانڈر 10 کور ۔ لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان، سی جی ایس (بعد میں جنرل بنے)۔ میجر جنرل احسان، ڈی جی ایم آئی (بعد میں جنرل بنے)۔ بریگیڈئیر راشد قریشی، ڈی جی آئی ایس پی آر اور چیف کے پرنسپل سٹاف افسر موجود ہوتے
مندرجہ بالا اقتباسات جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ سے لئے گئے جو یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کا مارشل لاء اپنی نوکری بچانے کے لئے لگایا تھا
دراصل پرویز مشرف جموں کشمیر کو کسی ذاتی فائدے کی خاطر پکا بھارت کے حوالے کرنا چاہتا تھا ۔ پرویز مشرف نے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے پاکستان کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے ”پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ”۔
پرویز مشرف نے مزید بتایا تھا کہ اسمبلیاں برقرار ہیں اورپارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی آجائے گی لیکن خود وردی والا چیف ایگزیکٹِو بن بیٹھا اور اسمبلیاں برخواست کردیں
پرویز مشرف کے وزیر خارجہ عبدالستار نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کی حمایت شروع کردی ۔ جس سے ثابت ہوا کہ پرویز مشرف دراصل امریکہ کا ایجنٹ ہے اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کرنا چاہتا تھا
پرویز مشرف نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پاک فوج اور پاک سر زمین کو نہتے افغان مسلمانوں پر حملہ کے لئے امریکہ اور نیٹو افواج کو پیش کر دیا
پرویز مشرف نے بغیر آرمی کمانڈرز کے مشورہ کے امریکی ڈرونز کو پاکستان میں جاسوسی کی خاطر اُڑنے اور میزائل حملوں کی اجازت دی
اپنے امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے پرویز مشرف نے بغیر آرمی کمانڈرز سے مشاورت کے ایف بی آئی اور سی آئی اے کے جاسوسوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی
آرمی کمانڈرز کے مشورے کے بغیر پرویز مشرف نے سینکڑوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا
پرویز مشرف کی شہ پر امریکیوں نے باجوڑ کے علاقہ میں واقع ایک مدرسہ پر حملہ کیا جس میں 85 بچے شہید کر دیئے گئے۔ اس پر جنرل مشرف نے کہا کہ یہ حملہ پاکستان آرمی نے کیا ۔ اس طرح پرویز مشرف نے امریکیوں کی نمک حلالی تو کر دی مگر یہ کہہ کر کہ یہ حملہ پاک فوج نے کیا، اپنی فوج کے خلاف نفرت کا بیج بو دیا ۔ پرویز مشرف کے اس بیان کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد پاکستان کی فوج پر اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں کی طرف سے پہلا حملہ درگئی میں ہوا جہاں ایک خود کش دھماکہ کے نتیجے میں 40 فوجی جوان شہید ہوئے
پرویز مشرف نے اگست 2006ء میں بلوچستان کے بگٹی قبیلے کے سردار اکبر بگٹی کو جو گورنر بھی رہ چکا تھا ہلاک کروا کر بلوچستان میں بغاوت کی بنیاد ڈالی
پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ذاتی عناد کی بناء پر کراچی میں 12 مئی 2007ء کو خون کی ہولی کِھلوائی جہاں درجنوں معصوموں کو شہید کیا گیا ۔ بجائے شرمندگی کے اُسی رات پرویز مشرف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک سیاسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مُکے لہراتے ہوئے کہا ”دنیا نے میری طاقت کا اظہار دیکھ لیا“۔
پرویز مشرف نے جی ایچ کیو کے ملٹری آپریشن جیسے اہم ترین ادارہ سے مشاورت کئے بغیر لال مسجد پر پاک فوج کے کمانڈوز کو آپریشن کرنے کا حکم دیا جہاں ہلاک ہونے والی بچیوں میں سے زیادہ کا تعلق مالاکنڈ اور دوسرے قبائلی علاقہ سے تھا چنانچہ اس کے بعد خودکش دھماکوں اور فوج پر حملوں کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا کہ اب تک ہمارے ہزاروں فوجی جوان اور افسر اپنے ہی لوگوں کی دہشتگری کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں
ایک بار پھر آئین کو پامال کرتے ہوئے 3 نومبر 2007ءکو پرویز مشرف نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو اس لئے نکال باہر کیا اوراُنہیں اُن کے گھروں میں بچوں سمیت قید کر دیا کیونکہ اُس وقت سپریم کورٹ کا ایک لارج بنچ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کی پیٹیشن پر مشرف کے وردی میں صدارت کا الیکشن لڑنے کے خلاف فیصلہ دینے والا تھا ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے اس خلافِ آئین اقدام میں پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں کی تفصیل
اب پرویز مشرف کی مالی دیانتداری (لُوٹ مار) کی ایک ہلکی سی جھلک
اکتوبر 1999ء میں نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹ کر کاروبار سمیٹنے کے بعد پرویز مشرف نے اپنے اساسوں کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق پرویز مشرف کی ملکیت کچھ پلاٹ تھے ۔ نقد رقم قابلِ ذکر نہ تھی ۔ اپنی کتاب ”In The Line of Fire” میں پرویز مشرف نے اپنی خاندانی خاکساری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ملازمت شروع کرنے کے وقت اُس کے پاس دولت نہ تھی
اب صورتِ حال یہ ہے کہ صرف پاکستان میں پرویز مشرف اپنے ذاتی ملازمین کو ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ روپے ادا کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ اس کے اپنے شاہانہ رہائشی اور سفری اخراجات کہیں زیادہ ہیں
پرویز مشرف کی ذاتی غیر منقولہ جائیداد میں چک شہزاد (اسلام آباد) کا وسیع قلعہ نما محل ۔ متحدہ عرب امارات اور لندن میں مکانات سرِ فہرست ہیں ۔ مزید مکانات اور کئی پلاٹ بھی ہیں
2013ء میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے اقرار نامہ میں پرویز مشرف نے لکھا تھا کہ اُس کے صافی (Net) اثاثہ جات پچھلے سال کے 51 کروڑ 60 لاکھ 9 ہزار ایک سو 72 (516009172) روپے سے بڑھ کر 64 کروڑ 50 لاکھ 11 ہزار 4 سو 65 (645011465) روپے ہو گئے ہیں ۔ صرف ایک سال میں صافی آمدن میں اس 12 کروڑ 90 لاکھ 2 ہزار 2 سو 93 (129002293) روپے اضافہ کا ذریعہ نہیں بتایا گیا
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر کے مطابق پرویز مشرف کی سالانہ آمدنی 15 لاکھ روپے ہے ۔ پھر ایک سال میں صافی اثاثہ جات میں تقریباً 13 کروڑ کا اضافہ کیسے ہوا ؟ مزید یہ کہ 2013ء تک 4 سال میں پرویز مشرف نے کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا ۔ ریٹائر ہونے سے قبل یعنی ملازمت کے دوران پرویز مشرف کا صرف تنخواہ میں سے انکم ٹیکس کٹتا رہا جو کہ زیادہ نہ تھا
پرویز مشرف کے مقامی بنکوں میں اکاؤنٹس کی جو فہرست سٹیٹ بنک آف پاکستان کی وساطت سے عدالت میں جمع کرائی گئی تھی کے مطابق بنک الفلاح ۔ حبیب میٹروپولٹن بنک ۔ مسلم کمرشل بنک ۔ الائیڈ بنک ۔ نیشنل بنک آف پاکستان اور میٹروپولٹن بنک میں 8 کروڑ روپے کے علاوہ ایک لاکھ 90 ہزار ڈالر بھی ہیں
غیر ممالک کے بنکوں میں جمع کرائی گئی تمام دولت کا تو پرویز مشرف ہی جانتا ہو گا ۔ صرف متحدہ عرب امارات میں پرویز مشرف کے جو اکاؤنٹ منظرِ عام پر آ چکے ہیں اُن کی تفصیل درج ذیل ہے
۔ ۔ ۔ بنک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکاؤنٹ نمبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکاؤنٹ کا ٹائٹل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رقم
ایم ایم اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وی 77777 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی ڈالر 16 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4002000315 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ امریکی ڈالر 5 لاکھ 35 ہزر 3 سو 25
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006722 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ امریکی ڈالر 80 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ ۔ امریکی ڈالر 13 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4002000304 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم ایک کروڑ 70 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006700 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم 76 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006711 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درہم 80 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006733 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم 80 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006744 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم 80 لاکھ
یعنی بنکوں میں کل نقد رقم درج ذیل ہوئی
۔ ۔ ۔ ۔ کرنسی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رقم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مساوی پاکستانی روپے
امریکی ڈالر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک کروڑ 16 لاکھ 25 ہزار 3 سو 25 ۔ ۔ ایک ارب 16 کروڑ 25 لاکھ 32 ہزار 5 سو
یو اے ای درھم ۔ ۔ 4 کروڑ 86 لاکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ارب 36 کروڑ 8 لاکھ
پاکستانی روپیہ ۔ ۔ 8 کروڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 کروڑ
معلوم بنک اکاؤنٹس میں کل نقد رقم ۔ ۔ ۔ 2 ارب 52 کروڑ 33 لاکھ 32 ہزار 5 سو پاکستانی روپے کے برابر
غیر منقولہ جائیداد اور منقولہ جائیداد میں سے زیورات اور فرنیچر اس کے علاوہ ہیں
پرویز مشرف نے 8 سال حکومت کی اور اس کے بعد پاکستان سے باہر مہنگے ممالک میں رہائش رکھی جبکہ ایوب خان نے 10 سال اور ضیاء الحق نے 11 سال حکومت کی تھی ۔ ضیاء الحق تو دورانِ حکمرانی ہلاک ہو گیا ۔ ایوب خان نے حکومت چھوڑنے کے بعد باقی زندگی اسلام آباد میں اپنی ذاتی رہائشگاہ میں گذاری ۔ ایوب خان یا ضیاء الحق کے پاس پرویز مشرف کی متذکرہ بالا دولت کا 10 فیصد بھی نہیں رہا ہو گا
پرویز مشرف نے ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ پاک فوج جس کو دیکھ کر عوام کے سر فخر سے بلند ہو جاتے تھے، وہ عوام کا سامنا کرنے سے کترانے لگے ۔ جنرل شاہد عزیز کے الفاظ میں ’’پھر مشرف صاحب کے آخری دنوں میں فوج کو وہ وقت بھی دیکھنا پڑا کہ فوجی منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ گھر سے سول کپڑے پہن کر نکلتے اور وردی دفتر میں جا کر پہنتے۔ محفل میں تعارف کراتے تو اپنا عہدہ چھپاتے۔ نہ جانے یہ کالک ہمارے منہ سے کب دھلے گی“۔
پرویز مشرف نے قومی اداروں کو اپنی ذات کے لئے بار بار استعمال کیا اُسے پاک فوج سے تشبیہ دینا پاک فوج کی توہین ہے ۔ دراصل پرویز مشرف پاک فوج کے اُجلے نام پر ایک بدنما دھبہ تھا
ایسے شخص کو پاک آرمی کی عزت اور اَنا کا کیسے نشان سمجھا جا سکتا ہے ؟
ایسے شخص کا احتساب ہماری افواج کا احتساب کیسے ہو سکتا ہے ؟
جس نے مسلمانوں کے خلاف اسلام دشمنوں کی مدد کی ۔ اپنے ملک کی خودمختاری کو بیچا ۔ بلوچستان میں آگ لگائی ۔ پاکستان اور پاکستان آرمی کو بے انتہا نقصان پہنچایا ۔ اس ملک کی گلی گلی میں آگ و خون کا کھیل شروع کرایا ۔ خود بھی لوٹ مار کی اور اپنی ذات کی خاطر اربوں کی کرپشن کرنے والوں کے ساتھ این آر او کا معاہدہ کیا ۔ بار بار آئین شکنی کا مرتکب ہوا
امت مسلمہ کو امریکن برانڈ اسلام کی دجالی راہ دکھناے والا ننگ ملک و ملت قصاب قابلِ صد لعنت ِ افلاک ہے
اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں کہ مشرف قابل مذمت تھا اور ہے اور اسے اگر نشان عبرت نہ بنایا گیا تو مارشل لا کا راستہ کھلا ہی رہے گا۔
فاروق درویش صاحب
تشریف آوری کا شکریہ
افضل صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ہے ۔ اِن شاء اللہ انصاف ہو کر رہے گا