“اللہ کرے ماموں مر جائیں”
یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ دو کمسِن لڑکیوں کے ہیں جو اُنہوں نے اپنی کسی طلب کے نہ پورا ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ پچھلے سال 3 اور 10 جولائی کے درمیان اپنی ماں سے دلی بد دعا کے طور پر کہے تھے ۔
پاکستان کی ہوائی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر جو چکوال کے رہنے والے ہیں اور آجکل اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں سے میری جان پہچان ہے ۔ کئی ماہ بعد 3 جون 2008ء کو میری اُن سے ملاقات ہوئی ۔ اتفاق سے 2 جون کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام میرے مطابق میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جمشید گلزار کیانی کا انٹرویو نشر ہوا تھا ۔ اُس پر میرے دوست اظہارِ خیال کر رہے تھے کہ سانحہ جامعہ حفصہ لال مسجد اسلام آباد کا ذکر آ گیا ۔ مجھ سے پوچھنے لگے “آپ کا اس واقعہ کے متعلق کیا خیال ہے ؟” میں نے کہا کہ وہ ایک ظالمانہ فعل تھا جس میں 4 سال سے 17 سال عمر کی سینکڑوں یتیم اور لاوارث بچیاں فاسفورس بم پھینک کر زندہ جلا دی گئیں ۔ پھر اُنہوں نے سوال کیا “کیا اللہ ایسا کرنے والوں کو سزا نہیں دے گا ؟” میں نے کہا کہ اللہ کے ہاں کسی بہتری کی وجہ سے دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیر نہیں ۔
وہ کہنے لگے
“پچھلے سال ایک واقعہ چکوال ہمارے خاندان میں ہوا جس کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ اللہ لال مسجد پر حملہ کا حُکم دینے والوں کو عبرتناک سزا دے گا ۔ میرا ایک عزیز ہے اُس کا برادرِ نسبتی [بیوی کا بھائی] فوج میں ہے اور وہ کھاریاں میں تعینات تھا ۔ جب لال مسجد کے خلاف کاروائی شروع ہوئی تو اُسے اس کاروائی میں حصہ لینے کیلئے اسلام آباد بھیج دیا گیا ۔ میرے عزیز کی دونوں کمسِن بیٹیاں 2 اور 10 جولائی 2007ء کے درمیان ہونے والی کاروائی ٹی وی پر دیکھ کر گولیاں اور گولے چلانے والے فوجیوں کو بد دعائیں دے رہی تھیں ۔ اُن کی ماں نے اُنہیں کہا کہ کچھ خیال کرو ۔ تمہارا ایک ہی ماموں ہے وہ بھی ان میں شامل ہے تو دونوں بچیوں نے دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا کر کہا کہ اللہ کرے ماموں مر جائیں” ۔
کبھی کبھار میری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہو جاتی ہے کہ میں حیران و پریشان رہ جاتا ہوں۔ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں کہ جو لال مسجد پر شرفو کی چڑھائی کے وقت تو اس حملے کی زور و شور سے حمایت کر رہے تھے لیکن چند ہی روز پہلے پاکستان کے کچھ شہروں میں ڈاکؤوں کو زندہ جلانے کو غیر انسانی فعل اور ظلم قرار دے رہے تھے۔ میں کوئی اس عمل، یعنی کسی کو زندہ جلانے کی حمایت نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو بس اپنی حیرت کا اظہار کر رہا تھا کہ ایک سال سے بھی کم عرسہ میں ان لوگوں نے انسانیت کہاں سے سیکھ لی؟ :shock: کہاں تو وہ ہزاروں بے گناہوں کو زندہ جلانے پر خوش ہوتے تھے اور کہاں اب کسی ڈاکو یا قاتل کو زندہ جلائے جانے پر بھی غمگین ہو جاتے ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے؟ :???:
شاید یہ بھی شرفو کی حکومت کا کریڈٹ ہے کہ اتنے کم عرصے میں اس نے اتنے سارے لوگوں کو انسانیت سکھا دی۔
تو وہ ہزاروں بے گناہوں کو زندہ جلانے پر خوش ہوتے تھے
is baat ka kui saboot nahain mila keh hazaroon jalay gai..molvion ku jhoot boltay sharam aanee chaheey.
lal masjid waloon nain 100 bandoon kee list dee hai jabkeh hakoomat ka bhee yahee andaza hai keah taqreeeban 70 banday.
اللہ کرے لال مسجد پر ظلم ڈھانے والوں کے پیٹ میںکیڑے پڑیں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے دماغ میںمچھر گھس جائے۔
جو کام گفت و شنید سے ہو سکتا تھا وہ ہم نے طاقت کے زور پر اسلیے کیا تاکہ ہمارے آقا ہم سے راضی رہیں خدا ناراض ہوتا ہے تو ہو اس کی انہیںپرواہ نہیںہے کیونکہ ان کا خدا پر اعتبار ہی نہیںہے۔
میسنا2 صاحب
میں سمجھتا تھا کہ آپ کا صرف دماغ کمزور ہے ۔ اب معلوم ہوا کہ آنکھیں بھی کمزور ہیں کہ سینکڑوں آپ کو ہزاروں نظر آتا ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو سیدھی راہ دکھائے ۔
دیگر مولویوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن آپ جیسا جھوٹا اور عقل کا اندھا شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔
کیا میں پاکستانی عوام میں سے ہوتا تو یہی نا کہتا!
کیا میں پاکستانی حکمران ہوتا تو یہی نا کرتا!
مسلم عوام بن کے جینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مسلمانوں پر حکومت کرنا۔
معاف کریں پاکستان کی ہجو یا ہند کی بڑائی یا دونوں کا موازنہ مقصود نہیں ہے، میں ایسی بات کہنا چاہ رہا ہوں جس کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں۔
اُردودان صاحب
انسان اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے ناممکن کو ممکن بنانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے ۔ مسلمان بننا تو اتنا زیادہ مشکل نہیں ۔
اور ان معصوم لوگوں کے قتل کا جواز ماسوائے انتہائی بزدلی اور خودغرضی کے کچھ نہ تھا ۔