ثانیہ رحمان صاحبہ نے سعدیہ سحر صاحبہ کی ایک نظم نقل کی ۔ اسے پڑھنے کے ساتھ ہی میرے ذہن میں کچھ الفاظ اُبھرے تھے جو میں نے وہاں تبصرہ کے خانہ میں لکھ دئیے تھے ۔ میں شاعر تو نہیں ہوں ۔ یونہی الفاظ کا جوڑ توڑ کر لیتا ہوں ۔ وہ الفاظ یہاں نقل کر رہا ہوں
میں جب دیکھتا ہوں ساحل کی ہوا
اِک نئی سحر کا سندیسہ ہے ملتا
کہ اب رُخ بدل چکی ہے بادِ سموم
اب زمیں سے نئی کونپلیں پھوُٹیں گی
جو پہلے کلیاں پھر وہ پھول بنیں گی
میرے وطن پہ ایک بار پھر آئے گی بہار
مسرت کی لہر پھر ہر طرف دوڑ جائے گی
اچھی کوشش بلکہ یہ کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ خوائش ہے
میرے وطن میں ایک بار پھر آئے گی بہار ۔ ۔ ۔