اب تک بی بی سی اردو اور کچھ پاکستانی نجی ٹی وی کے نمائندوں کی رپورٹوں اور بلاگرز کے ذاتی تجربہ کی صورت میں بہت کچھ سامنے آچکا ہے ۔ پھر بھی کچھ لوگوں کا 18 فروری کے انتخابات کو شفاف کہنا حیران کُن ہے ۔ انتخابات میں جس قدر بھی دھاندلی ممکن تھی وہ ہوئی ہے ۔
انتخابات سے پہلے دھاندلی
قاف لیگ سال بھر حکومتی سطح پر حکومتی اہلکاروں اور ذرائع کو استعمال کر کے قومی دولت بے دریغ بہاتے ہوئے انتخابی مُہِم چلاتی رہی ۔ اخباروں میں بڑے بڑے اشتہار چھپوائے جاتے رہے اور ٹی وی چینلز پر لمبے لمبے اشتہار دکھائے جاتے رہے ۔ پنجاب کے ہر شہر میں بڑے بڑے جلسے کئے گئے ۔ تمام سڑکوں کو قاف لیگ کے بینرز سے پُر کر دیا گیا ۔
ملک کے قانون کے مطابق کوئی فوجی کسی سیاسی جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتا اور نہ سیاسی تقریر کر سکتا ہے مگر قانوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے متذکرہ بالا انتخابی جلسوں میں جنرل پرویز مشرف شامل ہو ئے اور سیاسی تقریریں بھی کیں ۔
آئین کے مطابق ملک کا صدر سب کا صدر ہوتا ہے اور کسی ایک سیاسی جماعت کی حمائت نہیں کر سکتا مگر پرویز مشرف متذکرہ بالا سیاسی انتخابی جلسوں میں آئین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے سامعین کو قاف لیگ کو ووٹ دینے کی تلقین کرتے رہے ۔
نواز شریف 10 ستمبر 2007ء کو پاکستان پہنچا تو اسے زبردستی سعودی عرب بھیج دیا گیا اور نومبر کے آخر اس دن آنے دیا گیا جو انتخابات کیلئے نامزدگی کا آخری دن تھا ۔ اس طرح نواز شریف کو اچھے اُمیدوار چننے سے محروم رکھا گیا ۔ یہ بھی انتخابی دھاندلی تھی ۔
پنجاب میں کے 34 میں سے 22 اضلاع میں مقامی حکومتوں نے مسلم لیگ قاف کی کامیابی کے لئے دن رات کام کیا اور قومی دولت استعمال کر کے قاف لیگ کی انتخابی مہم چلائی ۔ ان 22 میں سے کم از کم 14 اضلاع ایسے تھے جہاں مقامی ناظمین کے رشتہ دار قاف لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
جو لوگ اپنے علاقوں میں نہیں جا سکتے تھے انہوں نے اپنا ووٹ ڈاک کے ذریہ بھیجنا تھا ۔ بجائے اسکے کہ یہ لوگ تخلیے میں ٹھپہ لگاتے بڑے افسران ان کو اپنے دفتر میں بُلا بُلا کر اپنے سامنے سائیکل پر ٹھپہ لگواتے ۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے قاف لیگ کو ووٹ ملنے کا یقین نہ تھا اسلئے اُنہیں بیلٹ پیپر نہیں بھیجے گئے ۔ انتخابات پر مامور عملہ کے بیلٹ پیپر انہیں دینے کی بجائے حکومتی وڈیروں نے خود ہی ڈال دیئے ۔
منصوبہ بندی کے تحت پورے پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ لوگ نہ تو حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں جائیں اور نہ ووٹ دینے کیلئے گھروں سے باہر نکلیں ۔ کمر توڑ مہنگائی ۔ آٹا اور گھی کا بحران ۔ دھماکے اور بجلی کا بار بار بند ہونا ۔
انتخابات کے دن دھاندلی
پورے پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اکثر مقامات جو پچھلے کئی انتخابات سے مقرر تھے انہیں بدل دیا گیا اور اسے مشتہر نہ کیا گیا نہ ہی حکومتی پارٹی کے کارندوں کے کسی اور سیاسی جماعت کو اس کی خبر دی گئی جس کی وجہ سے کئی لوگ خوار ہو کر بغیر ووٹ ڈالے گھروں کو چلے گئے ۔ اس سلسلہ میں میں نے بھی 2 کلو میٹر پیدل سیر کی ۔
کئی ووٹ ڈالنے کے مقامات پر ووٹروں کی فہرستیں غلط پہنچیں اور کئی پر فہرستیں پہنچی ہی نہیں ۔ کئی جگہوں سے کوئی شخص بیلٹ پیپر لے کر بھاگ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مقامات پراور ان بیلٹ پیپرز پر ووٹ کس نے ڈالے ؟
کراچی میں ایم کیو ایم نے داداگیری کا آزادانہ استعمال کر کے قومی اسمبلی کی 19 نشستیں حاصل کیں ۔ زیادہ تر پولنگ سٹیشنوں پر کسی دوسری جماعت کے پولنگ ایجنٹ کو آنے نہ دیا گیا ۔ ٹھپہ خفیہ طور پر لگانا ہوتا ہے لیکن ایم کیو ایم کا نمائندہ وہاں کھڑا ہو کر دیکھتا رہتا کہ ووٹر نے ٹھپہ کہاں لگایا ۔ کون ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ ڈال کر اپنی جان خطرہ میں ڈال سکتا ہے ؟ مرزا اختیار بیگ کی پریس کانفرنس اس کا صرف ادنٰی نمونہ ہے ۔
لاہور میں کئی علاقوں میں قاف کے مخالفوں کو ووٹ ہی نہ ڈالنے دیئے گئے ۔ کئی جگہوں سے بیلٹ پیپر یا بیلٹ بکس غائب کر دیئے گئے ۔ کئی ووٹروں کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ آپ کا ووٹ ہی نہیں ۔
جن علاقوں میں مسلم لیگ نواز یا پیپلز پارٹی کا بہت زور تھا حکومتی کارسازوں کو دھاندلی کا موقع نہ ملا یا جرأت نہ ہوئی جس کے نتیجہ میں راولپنڈی میں قاف کا ضلعی ناظم اپنے حلقے ہی میں مسلم لیگ نواز کے اُمیدوار سے شکست کھا گیا ۔ مضافات میں یا جہاں چھوٹی چھٹی آبادیوں کو ملا کر ایک حلقہ بنایا گیا تھا وہاں حکومتی تحصیل ناظمین ۔ پولیس اور پٹواریوں نے حکومتی اُمیدواروں کی کامیابی میں بڑا مگر گھناؤنا کردار ادا کیا ۔
پولیس اور پٹواری کا ایک کارنامہ اٹک سے پرویز الٰہی کا جیتنا ہے ۔ 18 فروری کو رات گئے تک اٹک شہر اور شہر سے ملحقہ علاقوں کا نتیجہ آ چکا تھا صرف کچھ مضافاتی علاقے رہ گئے تھے ۔ ان کے نتیجہ میں مسلم لیگ نواز کا اُمیدوار سہیل ساڑھے پانچ ہزار کی برتری سے جیت رہا تھا ۔ صبح بتایا گیا کہ پرویز الٰہی تقریباً دس ہزار کی برتری سے جیت گیا ہے ۔
لاہور میں پرویز الٰہی کے بیٹے مُونس الٰہی کے مقابلہ میں 18 فروی کو رات گئے تک مسلم لیگ نواز کا اُمیدوار بھاری اکثریت سے جیت رہا تھا ۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ مونس الٰہی جیت گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ کہیں سے ووٹوں سے بھرے ڈبے لائے گئے ۔
اس کی راولپنڈی سے مثال ہے شفیق خان کا صوبائی انتخاب میں اس علاقہ سے جیتنا جس کا تحصیل ناظم اس کا بھائی ہے ۔ اس علاقے کو شامل کرتے ہوئے بڑے قومی اسمبلی کے حلقہ میں انہی کا بھائی غلام سرور خان جو پچھلی حکومت میں وزیر تھا مسلم لیگ نواز کے چوہدری نثار علی سے ہار گیا ۔
چاچا اجمل!
مجھے زیادہ حیرانی پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارہ کہلوانے والے ’جنگ‘ پر ہے۔ جنکی بنیادیں کراچی میں ہوتے ہوئے لندن والےبابا کی تمام کرتوتوں کو جانتے بوجھتے عوام کو صحیح بات بتانے سے گریزاں ہیں۔اور جب بھی جنگ یا جیو دیکھیں تو ایم۔کیو۔ایم کی اچھائیاں پڑھنے کو دیکھنے سننےکو ملتی ہے۔
محترم اجمل انکل جی
السلام ُ عليکُم
اُمّيد ہے آپ بخير ہوں گے سب سے پہلے تو ميں صرف اس بات کے لۓ شُکر گُزار ہُوں کہ انتخابات ہو گۓ اور اللہ کا شُکر ہے امن و امان سے ہوگۓ ، عوام کو اپنا حق استعمال کرنے کا پُورا موقع ديا گيا اور انکل جی بقول آپ کے اگر دھاندلی ہُوئ بھی ہے پھر بھی حکُومت اپنے ہتھکنڈوں ميں کامياب نا پو پائ اور يہی سب سے بڑی کا ميابی ہے اس کے علاوہ يہ کتنی بڑی خُوبی ہے کہ آج ميڈيا کی بدولت ہم اتنے well awareہو چُکے ہيں کہ کل جن باتوں کے کُھلنے کے لۓ مُدّتيں درکار ہوتی تھيں اب عام عوام تک بھی بہت جلد رسائ مُمکن ہے بہر حال اب صرف يہ دُعا ہے کہ جو بھی آۓ ہميں مُلک کی سالميّت اور سلامتی سے مطلب ہے سچ ، سچّائ اور سچے لوگوں کی ضرُورت ہميشہ ہر دور ميں ہوتی ہے سو اپنا خيال رکھيۓ گا
مع السلام
شاہدہ اکرم
محبِ پاکستان صاحب
جنگ وہ اخبار ہے جس نے پاکستانیوں کو آنکھوں اور زہن کی بدکاری کی طرف راغب کیا ۔ صرف جنگ ہی نہیں دنیا کے زیادہ تر ذرائع ابلاغ صرف پیسہ کمانے کیلئے ہے ۔ اگر سچی خبر سے پیسہ زیادہ ملے تو سچی بھی چھاپ دیتے ہیں ۔
شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ السلام علیکم
اللہ کرے ہمارے ملک میں بہار آئے
ہر گھر میں سرور و نور کا نکھار آئے
اسلام علیکم
آپ نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، یہ تو ہر حکومت کا خاصہ رہی ہے۔
دھاندلی ہونے سے مراد جو ووٹنگ کے دوران ہوتی ہے وہ بہت کم ہوئی، بانسبت سابقہ الیکشن۔