بسلسلہ 15 دسمبر 2007ء ۔ 27 دسمبر کی شام بینظیر بھڎٹو کے قتل اور بعد میں پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے یہ موضوع پس منطر میں چلا گیا تھا جس کیلئے معذرت ۔
اسلام آباد میں رہائشی اور کمرشل پلاٹ جو بااثر بیوروکریٹس ۔ فوجی افسروں ۔ سیاستدانوں اور بزنس مینوں کو الاٹ کئے گئے وہ بھی کم نہیں مگر جو لوٹ مار ماڈل ولیج [Model Village] کے نام پر ہوئی اس کا خاکہ پیشِ خدمت ہے ۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں میں پولٹری اور سبزیوں کی افزائش کے نام پر اربوں روپے کی 2500 ایکڑ زمین 1970ء سے 1990ء تک کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کی گئی تھی ۔ حکومتی قواعد وضوابط کے مطابق اس زمین کا 80 فیصد حصہ سبزیوں کی بھرپور فارمنگ کیلئے استعمال ہوناتھا اور انڈے اور مرغی کی مناسب دستیابی کیلئے برائلر [broiler] اور لےئر [layer] مرغیاں بھی رکھنا تھیں ۔ ان قواعد کے مطابق پورے منصوبے کو 2 برس کے اندر پیداوار میں لانا ضروری تھا ۔ دیوالیہ پن کی صورت میں یا سی ڈی اے کے قواعد کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں سی ڈی اے معاہدہ کینسل کرکے کسی بھی فارم کی ملکیت حاصل کر سکتا ہے تھا اور اس سلسلے میں اسے کسی بھی مد میں کوئی واجبات یا ہرجانہ ادا نہیں کرنا ہوتاجبکہ پلاٹ واپس الاٹ کرنے والے ادارے کو مل جاتا ۔
یہ زرعی اراضی جڑواں شہر وں کے لوگوں کیلئے ارزاں نرخوں پر سبزیاں اور پولٹری مصنوعات فراہم کرنے کیلئے دی گئی تھی ۔ لیکن ان بااثر افراد جن میں صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز کے نام بھی شامل ہیں نے اس زرعی اراضی کو یہ اجناس پیدا کرنے کے بجائے یہاں پر زندگی سے لطف اندوز ہونے کیلئے بڑے بڑے محلات اور تفریحی سہولیات قائم کرلیں اور اسکی وجہ سے جڑواں شہروں کو سبزیوں اور پولٹری مصنوعات کی رسد میں کمی ہوئی اور اسکے نتیجے میں عوامی سطح پر مہنگائی بڑھی ۔
اس 499 با اثر ترین افراد کی فہرست میں زیادہ تر طاقتور جرنیل ، بیوروکریٹس، تاجر ، خفیہ ایجنسیوں کے عہدیدار شامل ہیں جن میں سے کچھ نے پلاٹ حاصل کرنے کے بعد سی ڈی اے کو دی گئی قیمت سے کہیں زیادہ داموں پر اسی وقت بیچ دیئے ۔ صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ اس فہرست میں موجودہ چیئرمین سینٹ محمد میاں سومرو ۔ سابق چیئر مین سینیٹ اور ایوان بالا کے موجودہ قائد ایوان وسیم سجاد، ڈی جی آئی ایس آئی میجرجنرل اسدنواز خان ۔ ڈاکٹر انور عزیز ۔ بریگیڈیئر سجاول خان ۔ رفعت جمیل نشتر ۔ محمد شجاعت عظیم(وزیر اطلاعات طارق عظیم کے بھائی) ۔ پیپلزپارٹی کی رہنما ناہید خان ۔ میجر جنرل ایس علی حامد ۔ مسز زیبا فصیح بخاری[میجرجنرل فصیح الدین بخاری کی بیوی] ۔ سعدیہ حفیظ پیرزادہ ۔ ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل رشیداحمد خان ۔ اعجاز شفیع ۔ بریگیڈیئر سجاول خان ملک ۔ ملیحہ لودھی ۔ شیر علی جعفر ۔ امبرین ہارون ۔ مسز یامینہ مٹھا [میجر جنرل مٹھا کی بیوی] ۔ میجر جنرل ایم اشرف خان ۔ بریگیڈیئر محمد حسین ۔ بریگیڈیئر صادق قریشی ۔ میجر جنرل فرحت علی بخاری ۔ میجر جنرل عطاء الرحمن ۔ سیف الرحمٰن اور دیگر کے نام شامل ہیں ۔ اس میں علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس(ر) جاوید اقبال کا نام بھی شامل ہےجس نے نذیر محمد شیخ سے 1999ء میں سبزیوں کے کاروبار اور پولٹری شروع کرنے کیلئے2.72 ایکڑ کا پلاٹ خریدا تھا۔
ایک صاحب میاں ریاض الدین کو 26.5 ایکڑ رقبہ کا پلاٹ دیا گیا تھا جنہوں نے بعد میں یہ پلاٹ خواجہ فرخ مجید کو فروخت کر دیا ۔ ایک اور صاحب غلام عباس کو 18 ایکڑ رقبہ کا پلاٹ دیا گیا تھا ۔
آئی ایس آئی نے بھی اپنے نام پر یہ زرعی فارمز الاٹ کرائے ۔ [کیوں ؟؟؟]
زیادہ لوگوں نے یہ فارمز اپنی بیویوں یا بیٹیوں کے نام پر الاٹ کروائے اسلئے ان کی شخصیت صرف سی ڈی اے کے مکمل ریکارڈ کے مطالعہ اور مزید تحقیقات ہی سے پتہ چل سکتی ہے ۔
پچھلے دنوں ہم نے بھی اس علاقے کا چکر لگایا تھا اور بڑے بڑے محلات دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ بات وہی ہوئی اگر قانون بنانے والے ہی قانون توڑیں تو پھر ملک میںلاقانونیت تو بڑھے گی ہی۔ لعنت ہے ایسی نوازشات پر جو غریبوں کی زکوت اور ٹیکس سے حاصل کی جائیں۔
ہوسکتا ہے کل کو اگر حکومت بدلے تو دوسری حکومت ان سے جائیدادیں خالی کرالے۔
حیرانی جنرل مشرف اور شوکت عزیز پر ہوتی ہے جنہوں مرغی خانے اور سبزیوں کے کاروبار شروع کرنے کیلیے زمین حاصل کی اور بعد میں جاگیردار بن بیٹھے۔