گاڑی کے سن روف کے لیور سے ٹکرا کر قاتل زخم والی بات تو زخم کی نوعیت نے ہی مسترد کر دی تھی ۔ 30 دسمبر کو آصف علی زرداری نے بتا کہ گاڑی کے سن روف کے لیور ربڑ کے ہیں ۔ ڈاکٹر مصدق اور ساتھیوں کی لکھی میڈیکل رپورٹ نامکمل ہے ۔ ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا تھا کہ آٹوپسی آصف زرداری نے نہیں کرنے دی جو کہ جھوٹ نکلا ۔ آٹوپسی راولپنڈی کے پولیس چیف نے نہیں کرنے دی تھی ۔ بینظیر کے قتل کی وڈیو کے متعلق ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا “یہ کون ثابت کرے گا کہ یہ وڈیو بینظیر ہی کے قتل کی ہے ؟” نیچے ملاحظہ کیجئے مختلف کیمرہ مینوں کی لی ہوئی وڈیوز جن سے واضح ہے کہ بینظیر گولی لگنے کے بعد گاڑی کے اندر گر گئیں پھر دھماکہ ہوا ۔ چینل 4 کی وڈیو میں نظر آتا ہے کہ گولی چلنے کے بعد بینظیر کا دوپٹہ اور بال اُوپر کو اُچھلے اور وہ نیچے گاڑی میں گر گئی پھر دھماکہ ہوا ۔
ویسے میرے خیال میں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ موت گولی سے ہوئی تھی یا لیور لگنے سے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ گولی چلی تھی۔ اور ظاہر ہے کہ گولی کسی کے اوپر تبھی چلائی جاتی ہے جب اسے مارنا مقصود ہو۔
محمد سعد صاحب
آپ کی بات درست ہے ۔