پاکستان بننے سے پہلے کے بھی مُجھے سارے اساتذہ ياد ہيں اور ميں اب تک اُن کو ياد کر کے دعائيں ديتا رہتا ہوں ۔ وہ تھے اُردو کے ہدائت حسين ۔ حساب کے بھگوان داس ۔ انگريزی کی مِسِز گُپتا ۔ تينوں بہت مُشفق اور محنت سے پڑھانے والے ۔ پاکستان بننے کے بعد اسلاميہ مڈل سکول اور مُسلم ہائی سکول ميں جنہوں نے مُجھے پڑھايا ۔ انگريزی کے نبی بخش ۔ نذير احمد قريشی ۔ ظہور احمد ۔ رياضی کے نور حسين ۔ آُميد علی ۔ طفيل قريشی ۔ ہدائت اللہ ۔ سائنس کے ہدائت اللہ ۔ تاريخ جغرافيہ کے سبغت اللہ قريشی ۔ دينيات کے مولوی عبدالحکيم جو بعد ميں رُکن قومی اسمبلی مُنتخب ہوئے ۔ گارڈن کالج ميں رياضی کے خواجہ مسعود ۔ انگريزی کے وِکٹر کے مَل اور برک ۔ کيمياء کے نسيم اللہ اور ڈاکٹر ٹَيبی ۔ طبيعات کے مسعود انوراور ملِک محبوب الٰہی ۔ انجيئرنگ کالج کے ڈاکٹر احمد حسن قريشی ۔ ڈاکٹر اکرام اللہ ۔ ڈاکٹر مُبشّر حسن ۔ عنائت علی قريشی ۔ سلطان حسين ۔ عبدالرّحمٰن ناصر ۔ چوہدری محمد رشيد ۔ مختار احمد ۔ ايم ۔ ايچ قريشی ۔ ظفر محمود خلجی ۔ وليم آرتھر ميلرز ۔ غرضیکہ سب ہی بڑی محنت سے پڑھاتے تھے ۔ بعد ميں جب بھی کبھی ان ميں سے کسی سے ملاقات ہوئی بہت اچھی طرح پيش آئے ۔ اِن ميں سے سوائے ايک اُستاذ کے ميرے دل ميں اب بھی سب کيلئے بڑی عزت ہے ۔
انجنيئرنگ کالج لاہور سے بی ايس ای انجنيئرنگ پاس کرنے کے بعد ميں نے دسمبر 1962 ميں پولی ٹيکنِک انسٹيٹيوٹ راولپنڈی ميں ملازمت شروع کی اور اللہ کی مہربانی اور اپنی محنت سے دو تين ماہ ہی ميں سينِئر اساتذہ اور پرنسپل صاحب کا منظورِ نظر بن گيا ۔ انسٹيٹيوٹ ميں پہلے سے ايک صاحب جو ميرے اُستاذ رہ چُکے تھے عارضی بندوبست کے تحت ملازم تھے ميں اُن کا احترام اپنے ساتھی کی بجائے اپنے اُستاذ کے طور پر ہی کرتا تھا ۔
ايک دن صبح سويرے انسٹيٹيوٹ پہنچ کر ميں اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا کہ پرنسپل صاحب کے دفتر کے پاس سے گذرنے کے بعد راستہ ميں اپنے سابق اُستاذ سے ملاقات ہوئی ۔ ميں نے سلام و نياز پيش کئے ۔ چلتے وقت اُنہون نے مجھ سے پوچھا ۔ آپ پرنسِپل صاحب سے مل کر آ رہے ہيں ؟ ميں نے کہا ۔ نہيں ميں پرنسپل صاحب سے نہيں ملا ۔ ميری پہلی کلاس ہے اس لئے جلدی ميں ہوں ۔ ميں اپنے دفتر پہنچا اور نوٹس اور کتاب لے کر کلاس روم ميں چلا گيا ۔ 40 منٹ بعد کلاس ختم ہوئی تو ايک سينيئر اُستاذ ميرے دفتر ميں آئے اور پوچھا کہ آپ صبح دير سے آئے تھے ؟ ميرے نہيں کہنے پر وہ کہنے لگے کہ ميں پرنسپل صاحب کے پاس بيٹھا تھا کہ آدھا گھينٹہ قبل آپ کے سابق اُستاذ تشريف لائے اور بولے ” آپ نے اجمل بھوپال کو تو نہيں ديکھا ؟” اور ميرے جواب کا انتظار کئے بغير پرنسپل صاحب کی طرف رُخ کر کے کہا “سَر ۔ ميں صبح سے اجمل بھوپال کو ڈھونڈ رہا ہوں ليکن نہيں ملے ۔ وہ چھُٹی پر تو نہيں ؟”
ميں آج پہلی بار اس واقعہ کا ذکر کر رہا ہوں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قُدرت ديکھئے کہ وہ صاحب اپنی اس غَلَط حرکت سے ميرا تو کچھ نہ بگاڑ سکے البتہ خود وہ کم از کم ميری اور ايک اپنے سے سينئر اُستاذ کی نظروں ميں گِر گئے ۔ يہ حقيقت ہے کہ جو انسان حَسَد کا شکار ہو جائے اُس کا ضمير مر جاتا ہے ۔ اللہ ہميں حَسَد کرنے اور جھوٹ بولنے سے بچائے ۔ آمين
آپ نے استاد کو استاذ دانستہ لکھا ہے؟ کیا صحیحتلفظاستاذ ہے؟ رہنمائی فرمائیے۔ شکریہ۔
فیصل صاحب
اصل لفظ اُستاذ ہی ہے یہ عربی سے لیا گیا ہے اور فارسی میں بھی استاذ ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔ عربی میں اس کو ” د ” کی طرح بولا جاتا ہے شائد اسی لئے کئی لوگ اسے اُردو میں استاد لکھتے ہیں ۔