یہ دنیا کیا ہے ؟ بس ایک میں ہوں اور ایک تم ہو اور تم بھی کیا ؟ باس میں ہی میں ہوں ۔
جنرل پرویز مشرف نے آج شام ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تین نومبر سے لیکر بیس نومبر تک جاری ہونے والے اپنے تمام احکامات کو تحفظ دیا ہے۔ نئے حکمنامے کے مطابق ان کے ان اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ نئی آئینی ترمیم کو ارٹیکل 270 اے اے اے کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد آئین میں لائی گئی تبدیلیوں اور نئے قوانین کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان ترامیم و اقدامات کو کسی عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جا سکے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اکتوبر انیسو ننانوے کے ماوارئے آئینی اقدامات کو بھی اسی طرز پر تحفظ فراہم کیا گیا تھا جس کی بعد میں عدالتوں اور پارلیمان نے توثیق کر دی تھی۔ آئین کے مطابق اسے معطل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور ایسا کرنے والے کی سزا موت قرار دی گئی ہے۔
ترمیم کے مطابق اس مدت کے دوران تمام احکامات اور تعیناتیاں کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ ترمیم کے ذریعے جنوری دو ہزار آٹھ میں متوقع عام انتخابات اور ججوں کے حلف کو بھی یہ آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد اس بات کی اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کا یہ اقدام ماورائے آئین تھا۔
پاکستان لائرز فورم کے چیرمین اے کے ڈوگر نے اس ترمیم کی تحریر کو بے معنی الفاظ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی ایسا قانون جو آئین کے خلاف ہو اس کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت کے پاس جوڈیشل پاور ہوتی ہے جس کو کبھی کوئی قانون یا آئین اس کو ختم نہیں کرسکتا۔
ایسے اقدامات دل کی تسلی کے لئے ہوتے ہیں!! اگر اس کی قسمت اس کے ساتھ نہ سے تو ان کا کیا فائدہ ہو گا؟ مگر اگر احتجاج ماند پڑ جاتا ہے جیسا کہ پڑتا نظر آرہا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعیب صفدر صاحب
اللہ کی کرنی تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ اصل مسئلہ عوام کا ہے جو اللہ سے ڈرنے کی بجائے انسانوں سے ڈرتے ہیں اور یہ مثال تو آپ نے سُنی ہی ہوگی کہ بچہ نہ روئے تو ماں بھی دودھ نہیں دیتی