نعمان صاحب نے میرے بلاگ پر فرمائش کی تھی کہ میں نماز پڑھنے کا طریقہ لکھوں ۔ حالات گواہ ہیں کہ ہماری قوم کی اکثریت نے کبھی اس پر توجہ دینے کی شائد ضرورت محسوس نہیں کی کہ ہم نماز میں پڑھتے کیا ہیں ؟ اور کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۔ وجہ وہ طاغوت کی تابعداری کا رویّہ ہے جسے لوگوں نے رواداری یا دنیاداری کا نام دے رکھا ہے ۔ یہ وہ پنجرہ ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی ہماری قوم کی اکثریت نے اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کے انجانے خوف میں اِس قدر مبتلا ہیں کہ بڑے بڑے قوی لوگوں کے اعضاء حرکت کی سعی سے محروم ہیں ۔
میرا مفروضہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت نماز پڑھتی ہے ۔ پانچ وقتی نہ سہی ۔ جمعہ کے جمعہ سہی یا کم از کم عیدین کی نمازیں ۔ ملاحظہ ہو کہ ہم نماز میں کہتے کیا ہیں اور عمل زندگی میں کرتے کیا ہیں
اللہ سب سے بڑا ہے ۔ یہ نماز شروع کرتے ہوئے اور بیچ میں سوائے رکوع سے کھڑے ہونے کے ہر عمل سے پہلے کہا جاتا ہے ۔
عمل ۔ عام زندگی میں جسے لوگ سب سے بڑا کہیں اس کی اطاعت نہ کرنے کی جراءت کم ہی کی جاتی ہے لیکن اللہ جو حقیت میں سب سے بڑا ہے اس کے معاملہ میں یہ اصول نہیں اپنایا جاتا ۔
کہتے ہیں ۔ اے اللہ تیری ذات پاک ہے خوبیوں والی اور تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان اُونچی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔
عمل ۔ یہ ساری خوبیاں کسی ایک انسان میں ہونا ممکن نہیں البتہ اگر ان میں سے ایک خوبی کسی انسان میں ہو تو لوگ اُس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں جبکہ ان اور ان سے اور بہت زیادہ خوبیوں کا مالک جو پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق ہے اس کی طرف اُس وقت رجوع کرتے ہیں جب انسانوں سے نا اُمیدی ہو جاتی ہے ۔
کہتے ہیں
۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہو شیطان مردود سے ۔
عمل ۔ اور عام طور پر ظاہری کشش اور وقتی فائدہ کی خاطر شیطان ہی کے نرغے میں رہتے ہیں ۔
کہتے ہیں ۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بخشش کرنے والا اور مہربان ہے ۔ سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔ مہربان ہے رحم والا ۔ مالک ہے روزِ قیامت کا ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تم نے انعام کیا نہ کہ اُن لوگوں کا جو تیرے غضب میں مبتلا ہوئے اور نہ گمراہوں کا ۔ الٰہی ہماری دعا قبول فرما ۔
عمل ۔ اللہ دعا کیسے قبول فرمائے گا جب مندجہ بالا الفاظ ہم صرف ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں [Lip service] نہ یہ الفاظ دل سے نکلتے ہیں اور نہ دماغ کے بہترین حصہ سے ؟ اور دل و دماغ کی قبولیت کے ساتھ نکلیں بھی کیسے جب لوگ شکلوں کے گرویدا ہیں نہ کہ سیرت اورعمل کے ؟ جسے دیکھو کسی افسر یا وزیر ی جرنیل سے اُمیدیں لگائے بیٹھا ہے اور وہ باری تعالٰی جو افسروں ۔ وزیروں اور جرنیلوں سمیت سب کو دیتا ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں بس اتنا ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے کہ نماز پڑھ لی ۔ روزہ رکھ لیا اور زکوٰت دے دی ۔
میں اللہ وحدہُ لا شریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو آدمی اللہ میں یقین رکھتے ہوئے اللہ سے کچھ مانگتا ہے اگر وہ اس آدمی کیلئے بہتر ہے تو اُسے ضرور ملتا ہے ۔ یہ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں ۔
میرا خیال ہے کہ اتنا ہی کافی ہے ۔ ہر قاری جب سونے کیلئے بستر پر دراز ہو تو آنکھیں بند کر کے اپنے پورے دن کے عمل کو ذہن میں لا کر صرف نماز میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کے ساتھ موازنہ کرے ۔ اگر یہ عمل ایک ماہ تک روزانہ کرے تو انشاء اللہ صحیح عمل کی طرف راغب ہونے میں مدد ملے گی ۔
وما علینا الالبلاغ
انکل جی بالکل ٹھیک کہا ۔۔ ۔ ۔ نماز کو ہم نے عادت تو بنا لیا ہے (عربیوں کی طرح) مگر عمل میں ہم شیطان سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔
ہم تو چلو رٹے رٹائے عربی کے جملے ادا کرتے ہیں مگر عربی جو یہ سب سمجھتے بھی ہیں اور پھر بھی انکا عمل نہیں کرتے ۔ ۔۔ اور اسکی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کر گذریں گے تو پھر وہ دنیاوی لحاظ سے کامیاب نہیں ہو سکتے ، اسی لئے دنیا کی کامیابی ہی زندگی میں کامیابی کا پیمانہ ہے ۔ ۔ تو پھر ہم بھی تو ایسا ہی سوچتے ہیں ۔۔ ۔
اللہ ہی ہم پر رحم کرے (آمین)