قصوروار کون ؟

سوات کے آخری ولی عہد مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سرحد اور بلوچستان کے گورنر رہنے والے اسّی سالہ میاں گل اورنگزیب سے ان کی سابق ریاست میں آج کل کے حالات کے بارے میں دریافت کریں تو وہ غصے میں کہتے ہیں “یہ ان سے پوچھیں جنہوں نے یہ حالات خراب کئے ہیں”۔ “یہ حالات خراب کئے ہیں مرکزی حکومت نے۔ میں تو برائے نام والیِٔ سوات ہوں”۔

میاں گل اورنگزیب کا کہنا ہے کہ سوات میں جو بھی ہو رہا ہے جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ کہنے لگے “یہاں لال مسجد کا قصہ بتاؤں میں آپ کو ۔ لال مسجد کا معاملہ ایک تھانیدار بھی حل کر سکتا تھا لیکن اسے حل نہیں کیا گیا۔ ایک سال تک تاخیر کے بعد معلوم نہیں کتنے سو لوگوں کو مار دیا ۔ جان لینے کی ان کو کوئی پروا نہیں ہے”۔

میاں گل اورنگزیب سے دریافت کیا کہ حکومت کیونکر حالات خراب کرے گی تو ان کا جواب وہی تھا جو پاکستان کی اکثر عوام سمجھتی ہے۔ “جتنے زیادہ حالات خراب ہوں گے اتنا زیادہ بُش ڈرے گا۔ یہ ان کو بتاتے ہیں کہ اگر ہمیں ہٹاتے ہو تو یہ اور بڑھے گا”۔

میرے اس سوال کا جواب انہوں نے براہ راست تو نہیں دیا کہ سوات میں شدت پسند کون ہیں ؟ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کافی مقامی لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ “سنتے ہیں کہ یہ افغانستان کا اثر ہے ۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کا اثر ہے ۔ یہ ہونا تھا ۔ اس لئے ہونا تھا کہ طالبان کس نے بنائے؟ آئی ایس آئی نے ۔ پھر 11ستبمر آیا اور طالبان کو بھی آپ نے اپنا دشمن بنا لیا۔ اس سے قبل تو یہاں کچھ نہیں تھا”۔

پوچھا کہ بات صرف القاعدہ تک کی ہے تو ان کا مسکراتے ہوئے جواب تھا “جب حالات خراب ہوتے ہیں تو سب بدمعاشی شروع کر دیتے ہیں۔ ’کہتے ہیں کہ مولانا فضل اللہ متوازی حکومت چلا رہا ہے۔ کوئی ایسی حکومت وہ نہیں چلا رہا۔ جب تم اپنی حکومت نہیں چلا سکتے تو کوئی تو چلائے گا۔ دوسرا یہ کہتے ہیں کہ وہ (پولیو کی) دوا کے خلاف ہے۔ ادویات کی کمپنیاں بھی کئی برسوں تک اپنا دوائیں مارکٹ کرنے کے بعد بند کردیتی ہیں کہ ان کے زہریلے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تو ہوسکتا ہے کل کو پولیو کے بارے میں بھی یہ خبر آ جائے”۔

پرامن تصور کئے جانے والے سوات میں یکایک شدت پسندی میں اضافے کے بارے میں سابق رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ مذہبی عناصر اور شدت پسندی شروع سے موجود تھی۔ “سرتور (سیاہ سر والا) فقیر نامی شخص نے برطانوی فوج کے خلاف ملاکنڈ کے مقام پر بیس ہزار مسلح افراد اکٹھے کرکے مزاحمت کی تھی تاہم وہ ہار گیا تھا “۔

ان کے بقول اصل بات ہوتی ہے کہ انہیں کیسے محدود رکھا جائے۔ “یہ حالات دوبارہ خراب موجودہ حکمرانوں کی نالائقی سے ہوئے ہیں۔ جب یہ سوات سٹیٹ تھی تو تب آپ نے سُنا ہو گا کہ رات کو بارہ بجے بھی اگر کوئی شخص اپنے گھر سے کہیں جانا چاہتا تھا تو کوئی اُسے ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا۔ لیکن اب ہر شخص کو خود اپنی حفاظت کرنی پڑتی ہے”۔

جب پوچھا کہ کیا اضافی فوجی مسئلے کا حل ہیں تو ان کہنا تھا کہ اب یہ فوج وہاں گئی ہے اور کافی مہینے ہوگئے ہیں۔ “میں نے لوگوں سے پوچھا کہ فوج وہاں کیا کر رہی ہے ؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ بس پہاڑوں میں بیٹھی ہے”۔

اگر ان کا الزام درست ہے تو حکومت نے حالات خراب کرنے کے لئے سوات کو ہی کیوں چنا۔ میاں گل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وہ تمام ملک میں تو اسے شروع نہیں کرسکتے تھے۔ “پہلے وزیرستان، پھر باجوڑ اور اب سوات”۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت کو جلد اقدام اُٹھانا چاہیے۔ “جب بھی آپ کسی مسئلے کے خلاف ابتداء میں اقدام نہیں کرتے تو وہ بڑھ جاتا ہے”۔

دلکش وادی سوات میں سیاحت ایک بڑا ذریعہ روزگار رہا ہے لیکن اب نہیں۔ انہوں نے اس بات پر خصوصی طور پر افسوس کیا کہ یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب حکومت نے اس سال کو سیاحت کا برس قرار دیا تھا۔ “جو کسی جاہل ملک کو دیکھنا چاہیں گے وہ یہاں آئیں گے”۔

چائے لانے والے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھی سوات سے ہے اور ڈبل ایم اے ہے لیکن بے روزگار ہے۔ “ایسے حالات میں کیا بہتری آئے گی”۔ سیاست سے تقریباً ریٹائر زندگی گزارنے والے میاں گل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وہ حالات کی بہتری میں اب کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔ “اگر وہ مجھے کسی کمیٹی کے لیے بھی نامزد کریں گے تو میں نہیں جاؤں گا۔ حالات مزید خراب ہوں گے۔‘ ’اگر مجھے ریاست سوات واپس بھی کر دی جائے تو میں اسے درست نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی فیکٹری مجھ سے آپ لے لیں اور تباہ برباد کرنے کے بعد لوٹا دیں تو میں کیا کرسکتا ہوں؟”

This entry was posted in خبر, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.