میں نہیں جانتا لکھنے والا کون ہے ۔ میں نے کہیں یہ نظم پڑھی ۔ بار بار پڑھی ۔ اور ہر دم دل کی گہرائیوں سے اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعا نکلتی رہی ”یا میرے مالک و خالق ۔ ایسا ہو جائے ۔ یا رب ذوالجلال والاکرام ۔ ایسا جلد ہو جائے ۔ اور یا اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی تو فیق عطا فرما“۔
اُمید کرتا ہوں کہ قارئین بھی صدق دل سے یہی دعا کریں گے
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اِک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظُلم نہ ہو ۔ اور جینا کوئی جُرم نہ ہو
وہاں پھُول خوشی کے کھِلتے ہوں ۔ اور موسم سارے مِلتے ہوں
بَس رَنگ اور نُور برستے ہوں ۔ اور سارے ہنستے بَستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو ۔ اور دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ۔ اور مرنا بھی آزار نہ ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو ۔ اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں مُنصف سے انصاف ملے ۔ دل سب کا سب سے صاف ملے
اِک آس ہے ایسی بستی ہو ۔ جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو ۔ یہ بستی کاش ہماری ہو
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اک بستی بسنے والی ہے
آمین ،ثم آمین ۔ کاش ایسا ہو جائے۔
صرف دعاؤں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ صرف محنت اور محنت سے ہی دعا میں اثر پیدا ہو گا۔
افضل صاحب
محنت کے ساتھ دعا بھی لازم ہے ۔ ویسے آپ نے آمین نہیں کہا
امید کرنا اچھی بات ہے۔ اگرچہ کہ میں ان دنوں گردوپیش کو دیکھوں تو قنوطیت سی طاری ہونے لگتی ہے۔
یازغل صاحب
جب اللہ سے اُمید ختم ہو جائے وہ وقت انسان کی تباہی کا ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ مایوسی گناہ ہے
آمین۔
ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں۔ اگرچہ ہر طرف مایوسی اور بے حسی نظر آتی ہے اس کے باوجود “اسپرنگ” آیا ہی چاہتا ہے۔
پیامی صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ اللہ جزائے خیر دے
آمین!!