سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
تیری ذات [ہر نقص سے] پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی [سب کچھ] جاننے والا حکمت والا ہے
یا رَحْمَنِ یا رَحِيمِ ۔ اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
اے نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والے ۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا
ایک مکالمہ کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کی معاشی حالت دگرگوں ہو چکی تھی تو کچھ محبِ وطن لوگوں نے اس وقت برطانیہ کے وزیرِ اعظم سر ونسٹن چرچل کے پاس جا کے اپنی پریشانی ظاہر کی ۔ سر ونسٹن چرچل نے پوچھا “ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں ؟” جواب ملا “ہاں”۔ پوچھا “لوگوں کو انصاف مل رہا ہے؟” جواب ملا “ہاں”۔ سر ونسٹن چرچل نے کہا “پھر کوئی فکر کی بات نہیں”۔ صرف دس برس بعد برطانیہ پھر عروج پر تھا ۔
اب تو واضح ہو گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے آئین سے دونوں بار صرف ذاتی حکمرانی کیلئے بغاوت کی ۔ پہلی بار جمہوری طور پر منتخب وزیرِ اعظم نواز شریف شکار ہوا اور دوسری بار عظمٰی اور اعلٰی عدالتوں کے اُن عظیم جج صاحبان کو نشانہ بنایا گیا جنہوں نے عام پاکستانی کو انصاف کی اُمید دلائی تھی اور اس نیک عمل کی پاداش میں اب کَس مپُرسی کی حالت میں اپنے اہلِ خانہ سمیت اپنی رہائش گاہوں میں قید ہیں ۔ میں نے لفظ “رہائش گاہوں” استعمال اسلئے کیا ہے کہ اِن میں سے کئی کا اپنا کوئی گھر ہی نہیں ہے ۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ اس قید سے رہائی کے بعد وہ جائیں گے کہاں ؟
ایمرجنسی کا نام دے کر مُلک میں مارشل لاء لگایا گیا ہے ۔ چیف آف آرمی سٹاف کو اختیار نہیں ہے کہ وہ مُلک پر کسی قسم کا کوئی حُکم نافذ کرے ۔ چیف آف آرمی سٹاف صرف فوج کو آئین اور آرمی ایکٹ کے تحت حُکم دے سکتا ہے ۔ ایمرجنسی آئین میں متعلقہ شق کے تحت صدر نافذ کرتا ہے اور اس میں آئین معطل نہیں کیا جاتابلکہ صرف کچھ بنیادی حقوق معطل کئے جاتے ہیں ۔ موجودہ نام نہاد ایمرجنسی اور دراصل مارشل لاء کا حُکم چیف آف آرمی سٹاف نے جاری کیا اور آئین کو معطل یا ختم کر کے عدالتِ عظمٰی اور اعلٰی عدالتوں کے اکثر قابلِ احترام جج صاحبان کو بغیر کسی جواز کے عہدوں سے ہٹا کر قید کر دیا گیا ہے جس کا اختیار نہ چیف آف آرمی سٹاف کو ہے نہ صدر کو ۔ مزید اس پی سی او کے مطابق پرویز مشرف کے کسی حُکم کو چیلینج نہیں کیا جا سکتا ۔ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہے اور ایمرجنسی اس کے نتیجہ میں ہے
اول روز سے صرف وکلاء اور صحافی احتجاج کر رہے ہیں اور آمریتی ظُلم کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ راولپنڈی کچہری کی پولیس نے مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے ۔ اس کے باوجود احتجاج اور وکلاء پر تشدد اور گرفتاریاں جاری ہیں ۔ تمام نجی ٹی وی چینلز پورے ملک میں اول روز سے بلاک کر دئیے گئے ہیں ۔ اخبارات میں حکومتی تشدد کی تصاویر چھاپنے پر پہلے دن ہی پابندی لگا دی گئی تھی ۔ اب مزید کوئی حُکمنامہ اخبارات کو شکنجے میں کسنے کیلئے تیار ہو رہا ہے ۔
اسلام آباد میں میرے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر ایف 8 مرکز آج طلباء نے مظاہرہ شروع کیا اور وکلاء ان کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ مظاہرین ڈیڑھ دو ہزار پُرجوش ہیں ۔ مظاہرہ جاری ہے ۔ اردگرد تماش بینوں کی تعداد مظاہرین سے زیادہ ہے ۔ ہزارو وکلاء اور سیاسی کارکن گرفتار کئے جا چکے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی ہے اور کچھ ینسانی حقوق کی تحریکوں کے ارکان بھی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ نواز کے کارکن زیادہ گرفتار ہوئے ہیں ۔ ان میں بینظیر کی پیپلز پارٹی اور فضل الرحمٰن کی جُوئی کے لوگ شامل نہیں ہیں ۔ کیوں ؟ یہ پرویز مشرف ۔ بینظیر یا فضل الرحمٰن ہی بتا سکتے ہیں ۔ آج لاہور ہائیکورٹ کے سامنے اچانک ایک ویگن میں مسلم لیگ نواز کے ڈیڑھ دو درجن ارکان پہنچ گئے اور باہر نکل کر حکومت کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی ۔ پولیس ان سب مظاہرین کو گرفتار کر کے لے گئی ۔
عوام جن کی خاطر عدالتِ عظمٰی کے 14 اور اعلٰی عدالتوں کے 60 محترم جج صاحبان نے بے مثال قربانی دی ہے اور وکلاء اور صحافی روزانہ تشدد برداشت کر رہے ہیں اور گرفتار ہو رہے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نشہ پی کر سوئے ہوئے ہیں ۔ اگر پولیس کے ڈنڈوں یا جیل سے بہت خوف آتا ہے تو کم از کم گھر کے اندر بیٹھ کر تو احتجاج کر سکتے ہیں ۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو خط لکھیں ۔ ٹیلیفون کریں ۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کو سمجھائیں کہ اگر انہوں نے اب بھی کچھ نہ کیا تو جو کچھ ان کے پاس ہے وہ بھی کسی وقت چھن سکتا ہے اور ان کی شنوائی دنیا کی کسی عدالت میں نہیں ہو سکے گی ۔ مثل مشہور ہے کہ روئے بغیر ماں بھی بچے کو دودھ نہیں دیتی ۔
پاکستان میں انٹر نیٹ 256K رکھنے والے جیو ٹی وی اور اے آر وائی ٹی وی مندرجہ ذیل ربط دیکھ سکتے ہیں ۔
http://videostream.cronomagic.com/geo
محسوس تو یونہی ہوتا ہےملک کے غیر یقینی حالات صرف اور صرف وکلا اور میڈیا کامسئلہ ہیں باقی سب پر تو بے حسی کی کیفیت محسوس ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔سب کچھ اتنا معمول کا ہورہا ہے کہ لگتا ہے کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا
امید صاحب
تبصرہ کا شکریہ