بلند پایہ اور باوقار
ملک میں ایمرجنسی اور نئے عبوری حکم نامے کے نفاذ کے بعد سپریم کورٹ کے پندرہ اور ہائی کورٹس کے ساٹھ سے زائد ججوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا ہے۔
اسلام آباد
سپریم کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس سمیت 19 جج ہیں جن میں سے جن 14 باوقار جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا وہ ہیں جسٹس افتخار چودھری کے علاوہ جسٹس رانا بھگوان داس، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار رضا خان، جسٹس خلیل الرحمان رمدے، جسٹس فلک شیر، جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصر الملک، جسٹس راجہ فیاض احمد، جسٹس چودھری اعجاز احمد، جسٹس سید جمشید علی، جسٹس حامد علی مرزا اور جسٹس غلام ربانی ۔
لاہور
لاہور ہائیکورٹ میں اس وقت چیف جسٹس سمیت 31 تھی جج ہیں ۔ جن 14 باوقار جج صاحبان نے حلف نہیں اٹھایا وہ ہیں جسٹس خواجہ محمد شریف ۔ جسٹس میاں نجم الزماں ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ ۔ جسٹس مولوی انوارالحق ۔ جسٹس سائر علی ۔ جسٹس میاں حامد فاروق ۔ جسٹس اعجاز احمد چودھری ۔ جسٹس ایم اے شاہد صدیقی ۔ جسٹس جاوید سرفراز ۔ جسٹس جہانگیر ارشد ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید ۔ جسٹس محمد عطاء بندیال اور جسٹس اقبال حمید الرحمن ۔
کراچی
سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس جسٹس صبیح الدین احمد سمیت 27 جج تھے ۔ 5 جج صاحبان کو حلف کیلئے بلایا نہیں گیا تھا ۔ 12 ججوں کو گورنر ہاؤس بلایا گیا جبکہ باقی ججوں کے نام ابھی زیرِغور ہیں ۔ جن جج صاحبان کو نہیں بلایا گیا ان میں جسٹس صبیح الدین احمد ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی ۔ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔ جن 12 ججوں کو حلف اٹھانے کے لئے بلایا گیا تھا ان میں جسٹس افضل سومرو ۔ جسٹس عزیزاللہ میمن ۔ جسٹس یاسمین عباسی ۔ جسٹس مسز قیصر اقبال ۔ جسٹس منیب احمد خان ۔ جسٹس علی سائیں ڈنو مہیتلو ۔ جسٹس ندیم اظہر صدیقی ۔ جسٹس محمود عالم رضوی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم ۔ جسٹس سلمان انصاری ۔ جسٹس ظفر احمد خان شیروانی اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔ ان میں سے صرف 4 ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔
پشاور
پشاور ہائی کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس سمیت 15 جج ہیں جبکہ ان میں سے 2 سیٹیں خالی تھیں۔ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے باوقار جج صاحبان میں چیف جسٹس طارق پرویز کے علاوہ جسٹس جہانزیب بھی شامل ہیں جنہیں صدارتی کیمپ کے قریب سمجھا جاتا تھا اور انہی کی درخواست سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف 9 مارچ کو ہونے والی کارروائی کا محرک بنی تھی ۔
خود غرض ذلیل
اسلام آباد
سپریم کورٹ کے جن ججوں نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے وہ ہیں محمد نواز عباسی ۔ فقیر محمد کھوکھر ۔ محمد جاوید بٹر اور سید سعید اشہد ۔
لاہور
جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا وہ ہیں چیف جسٹس افتخار حسین ۔ سید زاہد حسین ۔ نسیم سکندر ۔ جسٹس خالد علوی ۔ سید سخی حسین بخاری ۔ جسٹس مزمل خان ۔ ایم بلال خان ۔فضل میراں چوہان ۔ جسٹس شبر رضا رضوی ۔ جسٹس حامد علی شاہ ۔ طارق شمیم ۔ سید اصغر حیدر ۔ حسنات احمد خان ۔ عبدالشکور پراچہ ۔ شیخ حاکم علی ۔ سجاد حسین شاہ اور سردار اسلم ۔
کراچی
سندھ ہائی کورٹ کے 4 ججوں محمد افضل سومرو ۔ منیب احمد خان ۔ یاسمین عباسی اور مسز قیصر اقبال نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا
پشاور
پشاور ہائی کورٹ کے 7 ججوں طلعت قیوم قریشی ۔ حامدفاروق ۔ سلیم خان ۔ اعجازالحسن ۔ قائم جان اور سید معروف خان نے حلف اُٹھایا ۔ نئے چیف جسٹس طلعت قیوم قریشی دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور انہیں ہسپتال سے حلف برداری کے لیے گورنر ہاؤس لایا گیا۔ اعلان کیا گیا ہے کہ 2 مزید جج راج محمد اور رضا محمد پیر کے روز حلف اٹھائیں گے۔
کوئٹہ
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امان اللہ یٰسین زئی اور دیگر 4 ججوں احمد خان لاشاری ۔ جسٹس اختر زمان ملغانی ۔ جسٹس نادر خان اور جسٹس مہتہ کیلاش ناتھ کوہلی نے حلف اٹھا لیا ہے ۔
مسلمانوں نے مار کھائی ہے تو صرف اور صرف میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی وجہ سے۔ اللہ جانتا ہے جب انسان غداری کرتا ہے تو وہ اپنے ضمیر کو کیسے مطمن کرتا ہے اور کس طرح غیرقانونی احکامات کو قانونی قرار دے کر اپنے آپ کو باضمیر کہلاتا ہے؟
سلام
لیکن اگر جن ججوں کو آپنے باوقار میں شامل کیا ہے ان میں سے چند ایک مزید نے حلف اٹھا لیا تو؟ نامعلوم ان کی کیا مجبوری ہے۔ چند ایک ہی برے ہونگے باقی مجبور بھی ہو سکتے ہیں۔ بہر حال جان اور عزت آبر بچانی مشکل ہو ہی جاتی ہے۔
پتا نہیں حلف اٹھانے والوں کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ اگر پاکستان ہی نہیں رہے گا تو ان کی نوکریاں کیسے بچیں گی۔
باتمیز صاحب
آپ نے سُنا ہو گا کہ پُل صراط سر کے بال یا تلوار کی دھار کی طرح باریک ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ نیکی یا نیک عمل اور بدی یا بُرے عمل کے درمیان بال برابر فاصلہ ہے ۔ جسے یقین ہے اللہ خالق و مالک و رازق ہے وہ کسی انسان یا حیوان حتٰی کہ جن سے بھی نہیں ڈرتا اور صرف ایک ہی بار باوقار طریقہ سے مرتا ہے ۔ جس انسان کو اللہ پر بھروسہ نہیں ہوتا وہ ہر روز مرتا ہے ہر روز جیتا ہے ۔
سعد صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ آپ نے درست کہا کہ جب خدانخواستہ ملک ہی اپنے ہاتھ سے نکل جائے گا تو پھر نوکری کہاں رہے گی ۔