پیش لفظ
انشاء اللہ بنی اسراءیل کی تاریخ کا خاکہ پیش کر نے کے بعد ریاست اسرائیل کا تاریخی خاکہ پیش کروں گا ان مندرجات کے ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات کے علاوہ پچھلے 55 سال میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں ۔ 1937ء سے دسمبر 1947ء تک میرے والد صاحب کے کاروبار کا مرکز فلسطین تھا ۔ ان کی رہائش فلسطین کے ایک شہر طولکرم میں اور ہیڈ آفس حیفہ میں تھا ۔ والدہ صاحبہ کبھی مصر میں میرے نانا نانی کے پاس یا فلسطین میں والد صاحب کے ساتھ رہتیں کبھی ہندوستان ميں ہمارے ساتھ ۔ میری ایک بڑی بہن 1932ء میں قاہرہ (مصر) میں پیدا ہوئیں اور ایک چھوٹا بھائی فروری 1947ء میں فلسطین میں نابلس کے ہسپتال میں پیدا ہوا ۔ ميں اپنے دادا دادی کے پاس ہندوستان ہی میں رہا ۔ Worldwide Web کے حوالاجات مندرجہ ذیل ہیں ۔
افتخار اجمل بھوپال ۔ بتاریخ یکم نومبر 2005ء
http://www.soundvision.com/info/hajj/abraham.asp
http://www.stanford.edu/~jamila/Aqsa.html
http://www.angelfire.com/on/ummiby1/dawud.html
http://www.prc.org.uk/palestine%2048/soloman.html
http://theodor-herzl.iqnaut.net/
http://www.jewishvirtuallibrary.org/jsource/biography/
http://www.marxists.de/middleast/schoenman/map.htm
http://news.bbc.co.uk/hi/english/static/in_depth/world/2001/israel_and_palestinians/timeline/
http://www.dawn.com/weekly/encounter/encounter2.htm
http://www.etzel.org.il/english/ac10.htm
http://www.jewishvirtuallibrary.org/jsource/History/King_David.html
http://www.tylerphoto.com/people/dyan.html
http://indictsharon.net/massacres.shtml
http://www.chiesa.espressonline.it/dettaglio.jsp?id=38551&eng=y
http://www.dawn.com/2005/10/18/ed.htm#4
http://www.dawn.com/2005/11/29/op.htm#2
http://www.dawn.com/2006/02/04/ed.htm#4
۔ بنی اسراءیل
بیت اللہ (کعبہ) حضرت ابراھیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے آج سے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت آدم علیہ السّلام نے کعبہ بنایا اور مشہور طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السّلام نے اسے تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السّلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔
۔ 3 ۔ حضرت اسحاق علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السّلام تھے ۔ اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کا لقب تھا ۔ اسراءیل کے معنی ہیں عبداللہ یا اللہ کا بندہ ۔ بنی اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السّلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسراءیل میں پھر حضرت موسٰی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے بعد صحرائے سینائی کے علاقہ میں حضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوئے جو بعد میں فلسطین چلے گئے ۔
جب حضرت داؤد علیہ السّلام نے طاقتور دیو ہیکل جالوت (گولائتھ) کو اللہ کی نصرت سے غلیل کا پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صَول نے حسبِ وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مِشل (Michelle) سے کر دی ۔ صَول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السّلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے ہوا ۔ جِن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جنّوں کی مدد سے ایک عبادت گاہ اُس جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی
فلسطین کی ریاست 586 قبل مسیح میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کر کے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ اس کے سو سال بعد بنی اسراءیل واپس آنے شرو ع ہوئے اور انہوں نے اُس جگہ کے قریب اپنی عبادت گاہ تعمیر کی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کر کے بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسراءیل نے بغاوت کر کے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ سوسال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70ء میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کر کے انہیں وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (118ء تا 138ء) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن پھر بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کر کے یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور اُن کا واپس فلسطین آنا ممنوع قرار دے دیا ۔
بعد میں 614ء سے 624ء تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھُلی چھٹی دے دی مگر یہودیوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم و تشدّد شروع کر دیا ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے یہودیوں کی سرکوبی کی ۔ 636ء میں بازنطینی حکومت نے مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضي الله عنه کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس اُن کے حوالے کر دیا ۔ اِس طرح فلسطین سیّدنا محمد صلی الله عليه وآله وسلم کی اُمّت کی عملداری میں آ گیا ۔ حضرت عمر رضي الله عنه نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639ء میں اُس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اُسے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 709ء سے 715ء کے درمیان خلیفہ ولید نے اس مسجد کی تعمیرِ نو کروائی اور اُس کا نام غالباً معراج یا اِسراء کے حوالہ سے مسجد الاقصٰی رکھا ۔ 747ء کے زلزلہ سے مسجد بُری طرح متاءثر ہوئی تو نئے سرے سے مگر وسیع مسجد بنائی گئی ۔ 1033ء میں صلیبی جنگوں نے اسے خاصہ نقصان پہنچایا ۔ مزید صلیبی بادشاہوں نے اُسے اپنے محل میں تبدیل کر دیا ۔ 1927ء اور 1936ء کے زلزلوں سے اس کی عمارت کو بہت نقصان پہنچا جس کے باعث اس کی کُلی طور پر نئے سرے سے تعمیر شروع کی گئی جس کے دوران حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے پہلے کا عمارتی سامان بھی وہاں سے برآمد ہوا ۔
636ء سے 1918ء تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اردن بھی شامل تھا سیّدنا محمد صلی الله عليه وآله وسلم کی امّت مسلمہ کی حکومت رہی سوائے صلیبی جنگوں کے بعد کے چند سالوں کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوئے 1800 سال ہو چکے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد 1918ء میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا ۔ 1947ء میں برطانیہ نے فلسطین اقوامِ متحدہ کی تحویل میں دے کر اپنی فوج وہاں سے نکالنا شروع کی اور فلسطین عربوں کی تحویل میں چلا گیا
بنی اسراءیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زَکَرِیّا علیہ السّلام اور حضرت یحٰی علیہ السّلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السّلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے اُنہیں بچالیا اور اّن کا کوئی ہم شکل سولی پر چڑھا دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسراءیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے ۔
2 ۔ ریاست اسرائیل
2 ۔ 1 ۔ پس منظر
آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل جو بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896ء میں آیا ۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا ۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈیکلیریشن منظور کی
“Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people….”
[ترجمہ ۔ حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے]
اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل (سوٹزرلینڈ) میں اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ سارا فلسطین ۔ سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ ۔ [دیکھئے نقشہ نمبر۔ ۱ ]
فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا
“We shall try to spirit the penniless population across the border by procuring employment for it in the transit countries, while denying it any employment in our own country.”
[ترجمہ ۔ ہم فلسطین کے غریب عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دِلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اُن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے]
باقی صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا
“As soon as we have a big settlement here we’ll seize the land, we’ll become strong, and then we’ll take care of the Left Bank. We’ll expel them from there, too. Let them go back to the Arab countries.”
[ترجمہ ۔ جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اُردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ وہ جائیں عرب مُلکوں کو]
نظریہ یہ تھا کہ جب اس طرخ کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں 52 سال گذرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد 2000 سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد 500000 سے زائد تھی ۔1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہو گئی ۔ 1914ء تک مزید 40000 کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔
2 ۔ 2 ۔ برطانیہ کی عیّاری
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو اِس خیال سے کہ کہیں روس میں اُن کے قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میکماہون نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوئے ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پِیکاٹ کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا (دیکھئے نقشہ نمبر ۔ ۲ ) ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی ۔ چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوئے انگریزوں نے جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز نے 25 اپریل 1920ء کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا
2 ۔ 3 ۔ یہودیوں کی بھاری تعداد میں نقل مکانی
یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918ء میں فلسطین ميں ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق (جو کہ عربوں کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی) 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ یعنی 667500 مسلمان تھے اور 82500 یہودی تھے ۔ 1930ء تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اگست 1929ء میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں سوا سو کے قریب فلسطینی اور تقریبا اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی اِبتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا ۔ برطانیہ کے رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937ء میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا جصہ یہودیوں کو دے دیا جائے جبکہ کہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی اِ ملاک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف 2 سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کُچل دیا گیا ۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پسِ منظر چلا گیا مگر صیہونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی ۔
2 ۔ 4 ۔ بندر بانٹ
فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اِسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947ء کو یو این جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی ۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اسرائیل تین ٹکروں میں تھا جیسا کہ نقشہ نمبر ۔ ۳ میں دکھایا گیا ہے ۔
2 ۔ 5 ۔ صیہونیوں کی دہشت گردی
صیہونیوں نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اُڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی بارودی دہشت گردی تھی ۔ برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے پریشان تھی برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948ء کو ختم کر دے گا ۔
صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔ اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے اپنی 2000 سال پرانی آرزو ” یہودی ریاست اِسرائیل” کا 14 مئی 1948ء کو 4 بجے بعد دوپہر اعلان کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست بنا لی جو نقشہ نمبر ۔ ۴ میں دکھائی گئی ہے ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلحہ دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ ۔ اوردے ونگیٹ ۔ ارگون ۔ لیہی ۔ لیکوڈ ۔ ہیروت ۔ مالیدت ۔
چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔ موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔ مناخم بیگن جو 1977ء میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا ۔ یتزہاک شمیر جو 1983ء میں وزیراعظم بنا ۔ ایرئل شیرون جو موجودہ وزیراعظم ہے (2005ء)۔ موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو یو این او یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو یو این او کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اُڑایا تھا ۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حکم دینے والا ایریئل شیرون ہی تھا جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔
2 ۔ 6 ۔ صیہونیوں کا توسیعی پروگرام پر عملدرآمد
اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔
اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967ء کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا (دیکھئے نقشہ نمبر ۔ ۵ ) ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔
جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ مصری فوج نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینائی میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی ایئر فورس کے 200 کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے 6000 فوجی اور 200 پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینائی عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔ اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی ملٹری ٹریننگ لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکہ ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔
2 ۔ 7 ۔ بیس میٹر یا چھیاسٹھ فٹ اونچی دیوار کیسے ٹوٹی
مصری فوج کے ایک طبقہ پر 1967ء کی شکست نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ انوارالسادات کے صدر بنتے ہی انہو ں نے اپنا صحراۓ سینائی کا علاقہ اسرائیل سے واپس لینے کی تجاویز دینا شروع کر دیں ۔ اس وقت تک اسرائیل نے بلڈوزروں کی مدد سے نہر سویز کے کنارے کنارے 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنادی تھی ۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ریت کا ڈھیر لگایا جائے تو ریت سِرک کر زمین کے ساتھ 40 درجے کے لگ بھگ زاویہ بناتی ہے ۔ اس طرح ریت کی 2 میٹراونچی دیوار کے لئے بنیاد یا قاعدہ ساڑھے پانچ میٹر چوڑا بنتا ہے جبکہ اوپر سے چوڑائی صفر ہو ۔ اگر 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنائی جائے جس کی اوپر چوڑائی صرف 5 میٹر رکھی جائے تو زمین پر اس کی چوڑائی 60 میٹر یا 197 فٹ ہو گی ۔ اتنی چوڑی دیوار کو توڑنا ناممکن سمجھ کر ہی اسرائیل نے یہ دیوار بنائی ہو گی ۔
مصری فوج نمونے کے طور پر دریائے نیل کے کنارے ایک ریت کی دیوار بنا کر اسے توڑنے کی مشقیں کرنے لگی ۔ ان کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ہر قسم کے بم اور میزائل ریت کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ میزائل ریت کے اندر پھٹتا مگر دیوار کو خاص نقصان نہ ہوتا ۔ ریت کو اگر کسی جگہ سے بھی ہٹائیں تو اس کے اوپر اور داہنے بائیں والی ریت اس کی جگہ لے لیتی ہے
مصری فوج کا ایک میجر جو کہ مکینکل انجنیئر تھا ریت کی دیوار گرانے کے ناکام تجربے دیکھتا رہا تھا ۔ ایک دن ڈویژن کمانڈر نے اس معاملہ پر غور کے لئے تمام آفیسرز کا اجلاس طلب کیا ۔ اس میجر نے تجویز دی کہ ریت کی دیوار آتشیں اسلحہ کی بجائے پانی سے گرائی جا سکتی ہے مگر کمانڈر جو کہ جرنیل تھا مگر انجنیئر نہیں تھا نے اس میجر کی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ وہ میجر دُھن کا پکّا تھا اُس نے کہیں سے ایک پانی پھینکنے والا پمپ لے کر ایک کشتی پر نصب کیا اور ریت کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا کر دریا نیل کا پانی اس پمپ سے نوزل [nozzle] کی مدد سے ریت کی دیوار پر ایک ہی جگہ پھینکتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں ریت کی دیوار میں شگاف بن گیا ۔ اُس نے اپنے کمانڈر کو بتایا مگر کمانڈر نے پھر بھی حوصلہ افزائی نہ کی
کچھ عرصہ بعد صدر انورالسادات اس علاقہ کے دورہ پر آیا تو اس میجر نے اس کے سامنے تجربہ کرنا چاہا مگر کمانڈر نے ٹال دیا ۔ بعد میں کسی طرح اس میجر کی انوارالسادات سے ملاقات ہو گئی اور میجر نے اس سے اپنے تجربہ کا ذکر کیا ۔ انوراسادات نے میجر سے کہا کہ خفیہ طور پر تجربہ کرتا رہے اور پھر حساب لگا کر بتائے کہ 20 میٹر اونچی دیوار میں شگاف ڈالنا ممکن بھی ہے یا نہیں ۔ میجر دلیر ہو گیا اور مصر میں موجود سب سے بڑا پمپ حاصل کر کے ریت کی بڑی دیوار بنا کر تجربہ کیا جو کامیاب رہا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بڑے پمپ چاہئیں تھے جو صرف خاص طور پر آرڈر دے کر یورپ کی کسی بڑی کمپنی سے بنوائے جا سکتے تھے اور راز فاش ہونے کا خطرہ بھی تھا ۔ بہر کیف کسی طرح بہت بڑے پمپ بنوا کر درآمد کر لئے گئے ۔ پھر مضبوط کشتیاں بنائی گئیں 6 کشتیوں پر چھ چھ پمپ نصب کر کے مناسب وقت کا انتظار کیا جانے لگا
ماہ رمضان 1973ء میں یہ کاروائی کی گئی کہ ایک رات گولوں کی برمار کے دوران یہ کشتیاں نہر سویز میں اتار دی گئیں اور 20 میٹر اونچی دیوار کے 3 مقامات کا رُخ کر کے 3 کشتیوں کے پمپ چلا دیئے گئے ۔ 6 کشتیوں کے پمپ باری باری چلائے گئے اور چند گھنٹوں میں 20 میٹر اونچی دیوار میں 3 جگہوں پر کافی چوڑے شگاف بن گئے ۔ پھر فوراً پُل بنا کر مصری فوج ہلکے ٹینکوں سمیت صحرائے سینائی میں داخل ہو گئی اور ریت کی دیوار کے دوسری طرف موجود ساری اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ تو جناب یہ تھا پانی کا کمال اور مکینیکل انجنیئرنگ کے علم کمال ۔
2 ۔ 8 ۔ دہشتگرد حکمران
چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز تو 1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں (ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ) اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں (نقشہ نمبر 1)۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔
اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ۔ فلسطینی مسلمان یا اسرائیلی صیہونی ؟
مسلمان تو ایک طرف عرب عیسائیوں اور عرب یہودییوں کو جو کہ فلسطین کے باشندے ہیں ان کو فلسطین میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو باہر سے آئے ہوئے صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہودی صحافی شمیر ہے جو اسرائیل ہی میں رہتا ہے ۔ دیگر جس لڑکی لیلی خالد نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو اُجاگر کرنے کے لئے دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا تھا وہ عیسائی تھی ۔ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے تین لیڈر جارج حبش ۔ وادی حدّاد اور جارج حواتمے عیسائی تھے ۔ اتفاق دیکھئے کہ حنّان اشراوی ۔ حنّا سینی اور عفیف صفیہ جنہوں نے اوسلو معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی عیسائی ہی ہیں ۔ موجودہ صورت حال نقشہ نمبر ۔ ۶ میں دکھائی گئی ہے ۔
2 ۔ 9 ۔ یہودی ریاست کا حق ؟
”غیر تو غیر ہوئے اپنوں کا بھی یارا نہ ہوا کے مصداق کچھ پاکستانی بھائیوں کا بھی یہ خیال ہے کہ ”اسرائیل یہودیوں کا حق تھا“ یا یہ کہ چونکہ اسرائیل بن چکا ہے اس لئے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے“ ۔ جہاں تک ریاست کے حق کا معاملہ ہے تو اس کی کچھ تو زمینی بنیاد ہونا چاہیئے ۔
میں نے اپنی اُوپر کی تحریر میں جو تاریخی حقائق بیان کئے ہیں وہ یہودی ریاست کی نفی کرتے ہیں ۔ مزید میں دستاویزی حقیقت بیان کر چکا ہوں کہ حضرت اسحاق علیہ السّلام مسجد الاقصٰی میں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرّمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔ ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے اکتیس اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصر بلا لیا تھا ۔ بنی اسراءیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے جاتے ہوئے مسجد الاقصٰی فلسطینی باشندوں کے سپرد کر دی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگر بنی اسراءیل میں سے نہیں تھے ۔
حضرت یوسف علیہ السّلام کے 300 سال بعد حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوئے ۔ جس سرزمین پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعوی کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسی علیہ السّلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا
حضرت موسی علیہ السّلام کے 40 سال بعد تک بنی اسراءیل صحرائے سینائی میں بھٹکتے رہے یہاں تک کہ ان کی اگلی نسل آ گئی جس میں حضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوئے اور انہوں نے بھٹکی ہوئی بنی اسراءیل کو فلسطین جانے کو کہا ۔ میں لکھ چکا ہوں کہ کس طرح حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اول تو حضرت داؤد علیہ السّلام یہودی نہ تھے بلکہ قرآن شریف کے مطابق مُسلم تھے لیکن اگر یہودیوں کی بات مان لی جائے تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سب کچھ مسمار کر دیا تھا اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ (بابل عراق کے شمالی علاقہ میں تھا اور ہے)
اب پچھلی صدی کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اس کی مثال اس طرح ہے ۔ کہ میرے پاس 100 ایکڑ زمین تھی ایک جابر اور طاقتور شخص نے اس میں سے 60 ایکڑ پر زبردستی قبضہ کر لیا ۔ اب صلح کرانے والے مجھے یہ مشورہ دیں کہ “میری 60 فیصد زمین پر ظالم کا قبضہ ایک زمینی حقیقت ہے اس لئے میں اسے قبول کر لوں اور شکر کروں کہ 40 ایکڑ میرے پاس بچ گئی ہے ۔” کیا خُوب انصاف ہوگا یہ ؟ ؟ ؟ اور پھر اس کی کیا ضمانت ہو گی کہ وہ طاقتور شخص مجھ سے باقی زمین نہیں چھینے گا ؟
اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔ تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ [ہنگری] کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک [پولینڈ] کا ۔ گولڈا میئر کِیو [یوکرَین] کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک [روس] کا ۔ یِتسہاک شمِیر رُوزینوف [پولینڈ] کا ۔ چائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول [پولینڈ] کا تھا ۔
ثابت یہی ہوتا ہے کہ نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔ ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے [یعنی آج سے 2610 سے 3010 سال پہلے تک] تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے تو پھر ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔ اِسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہو جائے گا ۔ کوئی عجب نہيں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان [چندر گپت اور اشوک کمار ۔322 سے 183 قبل مسیح] نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ۔ جرمن ۔ ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کِس طرح جائز ہے ؟ ؟ ؟
علامہ اقبال کا ایک شعر ہے
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا
حقائق کیا ہیں ؟
[اضافہ بتاریخ 10 جنوری 2009ء]
3 ۔ دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں ۔ حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا ۔ دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالعہ اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر تحریر کیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے واقف ہو سکیں ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی سے زائد پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں
اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج نے جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں
پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا
سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ حذب اللہ نے 2 اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے 2 کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ یہ 2 اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے
اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے
لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین کو ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا
مسلمان یہودیوں کے مخالف ہرگز نہیں ہیں یہ ایک جھوٹا پروپگنڈہ ہے کہ مسلمان یہودیوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اس لءے یہودی ریاست کی مخالفت کرتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں کا ایک انتھا پسند گروہ جو مسلمانوں کو اس دنیا میں زندہ رہنے کا حق چھیننا چاہتا ہے اسی گروہ نے سرزمین فلسطین پر ایک سازش کے تحت قبضہ کیا اور پھر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈہاءیں اور ایک صہونی ریاست کا وجود عمل میں لایا گیا ہے۔ اس لءے حقیقت پسند مسلمان تاریخی دلاءل کی بنیاد پر اسراءیل کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔
سجاد علی استوری صاحب
آپ نے درست کہا ۔ میں نے اپنے اس تحقیقی مقالہ میں اسی حقیقت کو تاریخی واقعات کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔
جناب!
بہت خوشی ہوئی آپ کو پڑہ کر۔ اللہ آپ کو اسکا اجر دیگا۔ میرا کہنا ہے کہ اگر ہم انگریزی ذہنیت سے باز آئیں تو ہماري کاوشیوں کی تکمیل میں اسراع آئے گا۔
محمد نقاد صاحب
میرے لئے دعا کا شکریہ ۔ اللہ آپکو جزائے خیر دے
علا مۃ ا قبا ل کا شعر سا ری صو ر تحا ل کو کو زے میں بند کرنے کے مترادف ھے۔
اچھا کالم ھے-
ظفر احمد خلجی صاحب
شکریہ
السلام علیکم مکرم افتخار جمال صاحب !
آپ کا آرٹیکل میں نے اپنے کمپیوٹر میں کاپی کیا ہے امید ہے آپ اس سے ناراض نہیں ہوں گے۔ کیونکہ اس میں مجھے کچھ تاریخی حقائق سے بے رخی نظر آ ئی ہے اور میں اس کو تسلی سے پڑھنا چاہتا ہوں ، لیکن آپ کا آرٹیکل ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا ہے۔ اس وجہ سے بھی میں اسکو تسلی سے پڑھناچاہوں گا۔
شہزاد منور صاحب
تاریخی حقائق سے بے رُخی ؟ اگر واقعی نظر آ جائے تو مجھے ضرور بتائیے گا لیکن اس بات کا خیال رہے کہ حقائق اور مغربی دنیا کی تاویلوں میں بہت فرق ہے ۔
مکرم افتخار اجمل صاحب
السلام علیکم!
میں مغربی تاویلوں کو مانتا بھی نہیں۔ میں بھی آپکی ہی طرح قرآن کریم اور احادیث کو درجہ اول پر مانتا ہوں، میں نے اپنی تحریر میں پہلے ہی لکھا ہے کہ مجھے لگتا ہے، میں انشاء اللہ اس کو پڑھ کر آپ کی خدمت میں ضرور عرض کروں گا، آج مجھے وقت نہیں مل سکا کہ میں اس کو دیکھ سکوں، ورنہ ضرور بتاتا۔
والسلام
بہت خوب افتخار صاحب
بہت تفصیل سے سمجھنے اور یاد رکھنے لائق تحریر شائع کی
اللہ آپ کو جزا دے مزید لکھنے کا حوصلہ دے
وکی پیڈیا میں شامل کریں اس کو
طارق راحیل صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ وکیپیڈیا میرے بس کی بات نہیں
وہو تھناسک طعرے مئچھ
آنجئم ناواب صاحب
مجھے سمجھ تو نہیں آیا کہ آپ نے کیا لکھا ہے ۔ بہرحال تشریف آوری کا شکریہ
السلا م علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جزاک اللہ خیر۔ آپ نےبہت ہی تحقیق سےیہ پردہ چاک کیاہے۔ اورواقعی میں یہودی مسلمانوں کونہیں دیکھناچاہتااوروہ انڈیاکیطرح پوری دنیاپرقبضہ کرناچاہتےہیں لیکن اس میں سب سےبڑی رکاوٹ مسلمان ہی ہیں توان کاپہلاٹارگٹ بھی مسلمان ہی ہیں۔ لیکن ہم لوگ پتہ نہیں جانےانجانےمیں ان کی حمایت کیوں کرجاتےہیں۔ کہ یہودیوں کوانکاحق ملناچاہیےاس کومان لیناچاہیےوغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالی ہم کوصحیح سمجھ بوجھ عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
جاويد اقبال صاحب ۔ السلا م علیکم ورحمۃ وبرکاتہ
ميرے ہموطنوں کا مسئلہ يہ ہے کہ وہ اغيار کو ترقی کا زينہ سمجھتے ہيں
بہت بلاگ پڑھے ہیں لیکن آپ کا بلاگ سب سے منفرد ہے
عامر رانا صاحب
تشريف آوری اور حوصلہ افزائی کا شکريہ
ابھی پڑھا نہیں سو تبصرہ بھی نہیں
ارتقاء حيات والی صاحبہ
تو آج صرف حاضری لگرانے آئی تھيں
اجمل صاحب آپ کی تحریر کی داد دیتا ہوں لیکن ساتھ میں افسوس بھی ہوا کہ آپ نے صرف پرانے حالات پر روشنی ڈال کر اپنی قلم روک لی اور آج کے دور کی کوئی بات نہیں کی آپ کو ایران کے بلکہ دنیا کے نڈر انسان خمینی کا ذکر اور ان کے انقلاب کا ذکر بھی کرلینا چاہیے تھا کیوں کہ اس وقت اگر کوئی اسلامی مملکت فلسطین کی مظلومیت کی پرچار کررہاہے تو وہ جمھوریہ اسلامی ایران ہے جو اپنے نڈر قائد کے فرمان پر ابھی تک اسرائیل کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کررہا ہے ۔
عمر عثمان صاحب
ایسے کیجئے جہاں میں نے ختم کیا ہے اُس سے آگے آج تک کے حقائق آپ لکھ دیجئے ۔ اگر آپ کا بلاگ نہیں ہے تو مجھے بھیج دیجئے میں آپ کے نام سے شائع کر دوں گا ۔ ہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ یہ مقالہ اسرائیل کی تاریخ پر مبنی تحقیق ہے ۔ اگر ایران کا لکھوں تو مجھے کسرٰی سے شروع کرنا پڑے گا اور ایران سے قبل فلسطین کا کیوں نہ لکھوں ؟
السلام و علیکم! محترم اجمل صاحب، بزرگوار محترم!۔
میں شاید 1 سے زیادہ بار آپ کا یہ مقالہ پڑھ چکا ہوں۔ اور دوستوں کو ضرور پڑھنے کا مشہررہ دوں گا، لیکن آپ کے الفاظ کے مطابق “میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر تحریر کیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے واقف ہو سکیں ۔” ان حقاتق پر مزید تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے۔ اور حقیقت تو اس سے بھی تلخ ہے۔ میڈیا پر تو یہ بات آنے سے رہی کہ مسلمان پر جہاں بھی ظلم ہو، لازم ہے کہ وہ کوئی بڑی خبر نہیں، اور نہ ہی مالک اس پر ٹکر پانی دیں گے۔ آپ کی تو زاتی وابستگی ہے۔ کیاہی بہتر ہو اگر آپ اپنے تجربات کی طرح سلسلہ وار فلسطین اور کشمیر کی تاریخی ترتیب (ہسٹریکل ٹائم لائن) سے واقعات رقم کرنا شروع کر دیں، لیکن اردو میں۔ یہ محنت آپ کو بھی فائدہ دے گی، اور ہم ایسے نئے نوجوانوں کو بھی۔ اور آپ کے بلاگ کا نصب العین بھی تو یہی ہے نا۔۔۔!۔
م ش ا صاحب
جموں کشمیر کے متعلق تحریر ”تحریک آزادی جموں کشمیر“ کے عنوان سے میرے بلاگ پر موجود ہے
شکریہ جناب! لیکن فلسطین کا حصہ ابھی باقی ہے۔
آپ کا مضمون کافی طویل ہے جیسے جیسے پڑھتا رہوں گا سوال کرتا رہوں گا۔ آپ نے لکھا ہے ” حضرت عمر رضی اللہ عنہُ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639 عیسوی میں اُس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اُسے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے تعمیر کروایا تھا”۔ اس کا کوئی انٹرنیشنل ریفرنس مل سکتا ہے؟ شکریہ
جب مسلمان طاقتور تھے تو انہوں نے پہلے یہودیوں کو یثرب سے نکالا، پھر خیبر سے نکالا آخر میں جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔ اب یہودی طاقت میں ہیں تو وہ اپنی من مرضی کر رہیں۔ ملک اخلاقی ضابطوں سے نہیں طاقت سے فتح کیے جاتے ہیں اور میرے خیال میں مسلمان اگلے سو سال تک یہ علاقہ واپس نہیں لے
سکتے۔
امام دین صاحب
میں تفصیل پیش لفظ میں لکھ چکا ہوں ۔ البتہ بین الاقوامی حوالہ سے آپ کی کیا مراد ہے ؟
یہودیوں کو عرب سے مسلمانوں نے نہیں نکالا تھا ۔ آپ نے میری تحریر پڑھی ہوتی تو ایسا نہ کہتے
مسجد اقصا کب تعمیر ہوئی
مہربانی فرما کر کوئی جواب دے مسجد اقصا کب تعمیر ھوئی
میرا سوال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ واقعہ معراج میں حضرت عمر سے کئی سال پہلے مسجد اقصا کا زکر ہے
فرمان صاحب
بلاگ پر خوش آمدید ۔ آپ کے سوال کا مفصل جواب میری اسی تحقیقاتی تحریر کے پہلے 5 بند (پیراگراف) میں موجود ہے ۔ جو عبادت گاہ حضرت ابرھیم علیہ السلام نے بیت المقدس میں تعمیر کرائی پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے وہ مسجد اقصٰی ہی ہے
محترم افتخار اجمل بھوپال صاحب
آپ کے تاریخی حقائق بہت پسند آئے ہیں، آج سے دس برس قبل میں نے بھی کچھ مطالعہ کیا تھا اس کا ماحاصل بھی اسی میں ہے، آپ سے عرض کروں گا کہ اگر آپ اپنے والدین کی ہجرت کی کہانی ناول کے طور پر لکھ سکیں تو اس میں اور بہت کچھ اسرائیل کے متعلق عیاں ہو جائے گا۔
شکریہ
محمد ثناء اللہ صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ میں نہ تو ناول نویس ہوں اور نہ افسانہ نگار ۔ میں نے پہلے اپنی آپ بیتی کے تحت اپنی مجموئی صورتِ حال پر کچھ تحاریر لکھیں جو زیادہ اس بلاگ پر اور کچھ میرے انگریزی بلاگ پر موجود ہیں ۔ پھر اصحاب کے اصرار پر میری کہانی کے تحت مزید لکھنا شروع کیا ہوا ہے ۔ اللہ نے توفیق دی تو آپ کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کروں گا لیکن صرف مختصر حقائق کی صورت میں
اسلام علیکم کے بعد عرض ہے کہ میں ایم فل کی سکالر ہوں مجھے حضرت داؤد ؑ سے متعلق مزید تفصیل چاہیے
آمنہ صاحبہ ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
داؤد علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف سے رجوع کیجئے ۔ ان کا ذکر سورۃ بقرہ ۔ سورۃ نساء ۔ سورۃ مائدہ ۔ سورۃ انعام ۔ سورۃ اسرا ۔ سورۃ انبیاء اور سورۃ سبا میں موجود ہے
اللہ آپ کو ان کاوشوں کا اجر دے کیا آپ میری رہنمائی کر سکتے ہیں کہ میں حضرت داؤدؑ سے قبل بنی اسرایئل کے حالات و آثار (مذھبی ‘معا شرتی ‘تمدنی حالات )کے لیے کن کتا بوں کا مطالعہ کروں
آمنہ صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
حوصلہ افزائی کیلئے مشکور ہوں ۔ محترمہ میں تہہ دل سے طالبِ عِلم کی مدد کیلئے حاضر ہوں ۔ یہ مضمون جو میری 30 سال سے زائد محنت اور مطالعہ کا خلاصہ ہے میں نے دس بارہ سال قبل لکھا تھا ۔ اس سلسلہ میں مجھے کوئی کتاب اپنے مُلک میں نہیں ملی تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں کافی کام ہوا تھا ۔ اس دور میں پنجاب یونیورسٹی نے ایک انسائیکلوپیڑیا آف اسلام بعنوان ” دائرہ معارف الاسلامیہ“ شائع کی تھی ۔ اُس کی 24 اجلاد ہیں ۔ اُمید ہے کہ اُس میں آپ کو کچھ ضرور ملے گا ۔ عِلم میں میری ساری عمر کی کمائی اسلام آباد میرے گھر میں پڑی ہے اور میں اپنے بچوں کے پاس اپنے مُلک سے دور ہُوں ۔ پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں ۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب کوئی ہموطن بچہ تعلیم میں بالخصوص دینی تعلیم میں محنت کرتا ہے ۔ اللہ کریم آپ کی رہنمائی فرمائے اور آپ کو کامیابی عطا فرمائے
رہنمائی کے لیے شکریہ
اسلام و علیکم سر کیا آپ اس سلسلے میں مزیدمواد جمع کرنے میں میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟
آمنہ صاحبہ ۔ و علیکم السلام
میں آپ کو صورتِ حال بتا چکا ہوں ۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے یہاں سے میں صرف پنجاب یونیورسٹی کی شائع شدہ ”دائرہ معارف الاسلامیہ“ ہی بتا سکتا ہوں ۔ آپ اس کا مطالع کر لیجئے یا پھر قرآن شریف اُردو ترجمہ والا آپ کے پاس ہو گا ۔ اُس کا مطالعہ کر لیجئے
جزاک اللہ
السلام و علیکم سر دوبارہ تکلیف کے لیے معذرت لیکن آج میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ آپ کے پاس تو ماشاءاللہ بہت سے پاکستانی علماء سے روابط ہوں گے؟کیا آپ کسی کے ذریعے مواد اکٹھا کرنے میں میری مدد کر سکتے ہیں؟
آمنہ صاحبہ. السلام علیکم
میں نے کسی عالم سے باقاعدہ علم حاصل نہیں کیا. بچپن میں میری رہنمائی والدہ صاحبہ نے کی پھر مجھے پڑھنے کا شوق آگے چلاتا گیا. میں آجکل ایک وائرس یا الرجی بھگت رہا ہوں. دوسرے کتابوں سے دور ہوں. اسلئے فی الحال مزید کرنا مشکل ہے
جی بہتر! اللہ آپ کو صحتِ کاملہ نصیب فرمائے آمین
Mohtram Ajmal Bhaijan,
Ma Sha Allah, Allah SWT blesses you on your in-depth Tehqeeq
We are ashamed of Pakistan Rulers rolls