میں پچھلے 20 سال سے اُردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء کے متعلق جیسے کیسے ممکن ہوا مصدقہ معلومات کیلئے سرگرداں رہا ہوں اور اللہ کے فضل سے اہلِ عِلم نے میری اعانت بھی فرمائی ہے ۔ میں حاصل کردہ معلومات کو بہت پہلے قارئین تک پہنچانا چاہتا تھا لیکن یہ ایک پُرمغز محنت طلب کام تھا جس کیلئے بوجوہ میں اپنے آپ کو تیار نہ کر پا رہا تھا
اُردو زبان کے متعلق بہت کچھ جو زبان زدِ عام ہے حقیقت کے منافی ہے ۔ عصرِ حاضر میں جس زبان کو ہم اُردو کہتے ہیں اسے نہ کسی نے تخلیق (manufacture) کیا اور نہ یہ چند سالوں میں معرضِ وجود میں آئی ۔ گیارہویں صدی میں اس کی ابتداء لاہور میں ہوئی اور اسے اُنیسویں صدی میں اُردو کا نام دیا گیا ۔ ان 900سالوں میں اسے مختلف ناموں سے پکارا گیا جن میں سب سے پہلا نام ” لاہوری“ تھا ۔ اس کے بعد اسے ریختہ ۔ ہندوی ۔ ہندوستانی ۔ گجراتی ۔ دکنی ۔ دہلوی جیسے ناموں سے بھی موسوم کیا گیا
مضمون کو سمجھنے کیلئے میری مندرجہ ذیل تحاریر اسی
ترتیب میں باری باری کلِک کر کے پڑھیئے
تحقیق و تحریر.. افتخار اجمل بھوپال
پنجابی کوئی زبان نہیں
پنجابی قوم نہیں
اُردو سپیکنگ
ڈرتے ڈرتے
آج ایک تحقیق کے نچوڑ کا عکس پیش کر رہا ہوں
اور
پاکستان بننے سے بہت پہلے تحقیق کے بعد اُردو کی ابتداء اور ارتقاء کے متعلق لکھی گئی ایک مستند کتاب کے صفحات 5 تا 21 کا عکس بھی پیش کر رہا ہوں
ان سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُردو نے پنجاب کے مرکز لاہور میں جنم لیا بلکہ 22 جون 2012ء کو شائع کردہ میرا یہ مؤقف بھی درست ثابت ہوتا ہے کہ گیارہویں بارہویں تیرہویں صدی عیسوی میں پنجاب اُس علاقہ کا نام تھا جس میں موجودہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب ۔ موجودہ سندھ علاوہ دیبل ۔ موجودہ خیبرپختونخوا ۔ دہلی اور آگرہ وغیرہ بھی شامل تھے اور ان علاقوں میں معمولی فرق کے ساتھ ایک ہی زبان بولی جاتی تھی
متذکرہ دستاویزات کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ نہ تو اُردو زبان دہلی میں پیدا ہوئی اور نہ ہی اس کا پیشکار کوئی لشکر تھا اور اُردو نام اسے دو سو سال قبل ہی دیا گیا
دوسرے عکس کو کھولنے کیلئے اُردو کا ارتقاء پر کلک کیجئے