امریکہ کی بھرپور مدد کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور کچھ دوسرے ممالک کی امداد کی بُنیاد پر اسرائیل فلسطین کے کے محصور مسلمانوں پر جو ظُلم ڈھا رہا ہے ۔ اس کا مقصد کیا ہے ؟
(اسرائیل 1948ء سے اب تک امریکا سے 851 کھرب 72 ارب روپے کی امداد لے چکا ہے اور سالانہ 10 کھرب 79 ارب روپےکی فوجی امداد 2028ء تک جاری رہے گی)
میرے کئی دہائیوں کے مطالعہ کے بعد یکم نومبر 2005ء کو شائع کردہ تحقیقی مقالہ کا صرف ایک بند (پیراگراف)
ریاست اسرائیل کا پس منظر
آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل جو بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896ء میں آیا ۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈیکلیریشن منظور کی
“Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people….”
(ترجمہ ۔ حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے)
اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل (سوٹزرلینڈ) میں اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ سارا فلسطین ۔
سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ ۔ ( دیکھیئے نقشہ)
