میں صرف اپنے چشم دید کچھ واقعات اور ان سے مرتب ہونے والے خیالات بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے توفیق عطا فرمائے ۔ پہلے اپنے سائنسدانی سکولوں میں دینیات کا حال ۔
ہمارے سکول ۔ چھٹی اور ساتویں جماعت میں ہمارے جو استاد تھے وہ دینی مدرسہ سے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ ایک لڑکے کو کہتے پڑھو ۔ وہ کھڑا ہو کر دوسرے پارہ کی بلند آواز سے تلاوت شروع کر دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد استاد کہیں چلے جاتے اور طلباء اپنی مرضی سے پڑھتے رہتے ۔ دو سال ہم صرف دوسرا پارہ پڑھتے رہے ۔ آٹھویں جماعت میں میں دوسرے سکول چلا گیا ۔ وہاں کے استاد بھی کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ وہ کسی لڑکے کو پڑھنے کا کہہ کر خود کرسی پر دونوں پاؤں رکھ کر اکڑوں سو جاتے ۔ لڑکوں کے شور سے جاگ جاتے تو جو سامنے ہوتا اس کی پٹائی ہو جاتی ۔ ایک دن ایک لڑکا نیکر پہن کر آگیا ۔ استاد اسے شیطان کا بچہ شیطان کا بچہ کہتے گئے اور چھڑی سے پٹائی کرتے گئے ۔ اس کی ٹانگوں پر نیل پڑ گئے ۔ وہ کمشنر کا بیٹا تھا اس لئے استاد کی چھٹی ہو گئی ۔
پھر مولوی عبدالحکیم صاحب کو کنٹریکٹ پر رکھا گیا ۔ وہ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل تھے اور راولپنڈی کی تین بڑی مساجد میں سے ایک کے خطیب تھے ۔ انہوں نے نویں جماعت میں سلیبس کے علاوہ ہمیں اچھا انسان بننے کے اصول بھی قرآن اور سنّت کی روشنی میں بڑی اچھی طرح سمجھائے ۔ ایک دن پڑھانے کے دوران ایک لڑکا شرارتیں کر رہا تھا ۔ دو بار منع کرنے پر بھی منع نہ ہوا تو مولوی صاحب نے اس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے دن کلاس میں مولوی صاحب نے اس لڑکے کے پاس جا کر کہا بیٹا غصہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے اسی لئے حرام ہے ۔ مجھے غصہ آگیا تھا اور میں نے آپ کی پٹائی کر دی مجھے معاف کر دو ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب 1970 کے الیکشن میں راولپنڈی سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب نے سکول کے ایک خلاف اسلام فنکشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ ایک سال بعد ان کی چھٹی ہو گئی ۔
دسویں جماعت میں جو صاحب اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے انہوں نے ہمیں اسلامیات بالکل نہیں پڑھائی صرف شعر سناتے رہے اور کبھی کبھی افسانے ۔ موصوف شاعر تھے ۔ چھوٹی سی داڑھی رکھی تھی شائد اسی لئے اسلامیات کے استاد بنا دیئے گئے ۔ ارباب اختیار سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو بتایا گیا ۔ فکر کی ضرورت نہیں اسلامیات کا امتحان نہیں ہو گا ۔
میں نے 1983 میں بوائے آرٹیزن کے لئے 1200 فرسٹ ڈویژن میٹرک پاس امیدواروں کا انٹر ویو لیا ۔ ہر امیدوار سے انگریزی ۔ حساب اور اسلامیات کے سوال پوچھے ۔ سوائے دو تین کے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ خلفائے راشدین کیا ہوتا ہے ۔ اکثر لڑکوں کو نماز کا صحیح طریقہ معلوم نہ تھا ۔ ایک امیدوار نے اسلامیات کے سوالوں کے فرفر جواب دیئے ۔ میں نے مزید سوال پوچھے اس نے صحیح جواب دیئے ۔ ایڈمن آفیسر نے بتایا کہ یہ لڑکا عیسائی ہے تو میں نے پوچھا کہ آپ عیسائی ہوتے ہوئے اسلامیات پڑھتے ہیں ؟ کہنے لگا بائبل کا کورس بہت زیادہ ہے ۔ اسلامیات کی چھوٹی سی کتاب ہے اس لئے میں نے اسلامیات لی ۔ بارہ دن میں انٹرویو ختم ہوئے تو لیبر یونین کے صدر جو سیّد ۔۔۔ شاہ تھے میرے پاس آئے اور کہا سر آپ ظلم کر رہے ہیں اسلامیات نہ کوئی پڑھتا ہے نہ کوئی پڑھاتا ہے ۔ میٹرک میں اسلامیات میں فیل ہونے کے باوجود لڑکے پاس کئے جاتے ہیں ۔ کوئی سائنس وائنس کی بات کریں ۔
مدرسے ۔ میں پچھلے چالیس سالوں میں لاہور ۔ کراچی ۔ اکوڑہ خٹک ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی مدرسوں میں معلومات کی خاطر گیا ۔ سب مدرسوں میں زیادہ تر طلباء ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنا پیٹ پالنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی تعلیم کے علاوہ کھانے اور کپڑوں کا خرچ بھی مدرسہ کے ذمہ ہوتا ہے ۔سب مدرسے لوگوں کی مالی امداد سے چلتے ہیں ۔ میں مدرسوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہوں ۔
اول ۔ رجسٹرڈ مدرسے جن میں سے کئی عرصہ دراز سے قائم ہیں ۔ ان مدرسوں میں تعلیم اور امتحانی نظام ہمارے سرکاری سکولوں اور بورڈوں سے بہتر ہے ۔ وہاں کوئی نقل نہیں ہوتی اور نہ کوئی سفارش یا رشوت سے پاس ہوتا ہے ۔ جو پاس ہوتے ہیں وہ اس کے اہل ہوتے ہیں ۔ میں کم از کم دو ایسے اشخاص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے اپنے باپوں کے مدرسوں سے گریجوایشن کی بنیاد پر برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ان مدرسوں میں ہمیشہ سے غیر ملکی طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ مدرسوں میں دین کے علاوہ کچھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے ۔ کچھ مدرسے ایسے ہیں جہاں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ یعنی حساب سائنس تاریخ جغرافیہ وغیرہ ۔ زیادہ تر رجسٹرڈ مدرسوں کے منتظم چندہ مانگنے نہیں جاتے لوگ از خود امداد کرتے رہتے ہیں ۔
دوم ۔ غیر رجسٹرڈ مدرسے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں اور عام طور پر مساجد کے اندر یا ان کے ساتھ ہیں ۔ یہ زیادہ تر صرف قرآن شریف پڑھاتے ہیں اور کچھ مدرسے حفظ بھی کراتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں گرد و نواح کے بچوں کے علاوہ یتیم اور غریب بچے بھی ہوتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں کچھ ایسے ہیں جن کے ارباب اختیار تنگ نظر ہیں ۔ ان مدرسون کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے مگر امریکی ایجنڈا کی بجائے پاکستانی ایجنڈا کے مطابق ۔