انسان کا قلب تو ایک ” سُپر ہائی وے“ کی مانند ہے
اس پر بادشاہی سواریاں بھی گزرتی ہیں،
امیر کبیر بھی چلتے ہیں،
غریب و فقیر بھی گزرتے ہیں،
خوبصورتوں اور بدشکلوں کی بھی یہی گزر گاہ ہےِ
نیکو کاروں، پارساؤں اور دین داروں کے علاوہ کافروں، مُشرکوں، مُجرموں اور گنہگاروں کے لئے بھی یہ شارع عام ہے
عافیت اسی میں ہے کہ اس شاہراہ پر جیسی بھی ٹریفک ہو، اس سے متوجہ ہو کر اسے بند کرنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی تو دل کی سڑک پر خود اپنا پہیہ جام ہونے کا خطرہ ہے
اس لئے راستے کا ٹریفک سگنل صرف سبز بتی پر ہی مشتمل ہوتا ہے، اس میں سرخ بتی کے لئے کوئی جگہ نہیں
قدرت الله شہاب