15 اگست 1947ء کی صبح ريڈيو پاکستان سے یہ ترانہ بجايا گيا تھا
توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا
مَطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا
ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں
ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو
ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش
لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں
ان کو یہ چند شعر میرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق
اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو
جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اُٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر
نامِ محمدِ عربی صلعم پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے
حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دِیں
اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا
دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم
دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار
اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا
یہ مولانا ظفر علی خان کا کلام ہے جو بعد میں مجموعہءِ کلام ”چمنستانِ حجاز“ میں شائع ہوا
یوم جشنِ آزادی مبارک