13جولائی اب بھی یوم شہدائے کشمیر کےطور پر منایا جاتا ہے۔ اسی 13جولائی کے بطن سے 14 اگست نے جنم لیا۔ یوم شہدائے کشمیر اور پاکستان کے یوم آزادی میں ا یک مضبوط تعلق ہے جو قرآن نے پیدا کیا۔ اس تعلق کی کہانی جموں سے شروع ہوتی ہے اور سرینگر تک
پہنچتی ہے۔ 29 اپریل 1931ء کو جموں کے مسلمان نمازِعید کے لئے اکٹھے ہوئے تھے اور مفتی محمد اسحاق نے عید کے خطبے میں قرآن کی ایک آیت پڑھی جس میں فرعون اور موسیٰ عليه السلام کا ذکر آیا۔ مفتی صاحب نے فرعون کے ظُلم و سِتَم کا ذکر کیا تو ایک پولیس افسر بابو کھیم چند نے مفتی صاحب کو خطبہ روکنے کا حکم دیا جس پر جموں کے مسلمانوں نے احتجاج شروع کردیا۔ چند دن کے بعد جموں کی سنٹرل جیل میں ایک انسپکٹر لبھو رام نے کانسٹیبل فضل داد خان کے سامنے دوبارہ قرآن کی توہین کی جس کے بعد مسلمانوں کا احتجاج سری نگر تک پھیل گیا۔ سری نگر میں خانقاہِ معلّی حضرت شاہ ہمدان پر احتجاج ہوا تو ایک پختون نوجوان عبدالقدیر نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف باغیانہ تقریر کردی۔ عبدالقدیر کا تعلق دِیر سے تھا اور وہ ایک انگریز فوجی افسر کا خانساماں تھا۔ اسے گرفتار کرلیا گیا۔ 13جولائی 1931ء کو عبدالقدیر کے خلاف سری نگر کی سنٹرل جیل میں قانونی کارروا ئی شروع ہوئی تو کشمیری مسلمان جیل کے باہر اکٹھے ہوگئے۔ پولیس نے گرفتاریاں شروع کردیں تو مظاہرین نے جیل کی دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کردی۔ پولیس نے اذان دینے والوں پر فائرنگ شروع کردی۔ 22 کشمیری مسلمان شہید ہوگئے
یہ وہ شہداء تھے جن کے لئے مولانا عبدالمجید سالک نے نظم لکھی۔ 9 اگست 1931ء کو لاہور میں علامہ اقبالؒ کی صدارت میں کشمیر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ 14 اگست کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے گا۔ 14 اگست 1931ء کو بعد از نماز جمعہ باغ بیرون موچی گیٹ لاہور میں عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں علامہ اقبالؒ نے کشمیر کی آزادی کے لئے باقاعدہ جدوجہد کا اعلان کیا۔