Monthly Archives: November 2022

لمحہءِ فکر ہے یارانِ نقطہ دان کے لئے

ایک حسابی نے تجزیہ کیا ہے کہ عام انسان اپنا وقت کیسے گذارتا ہے ۔ تجزیہ ہوشرُوبا ہے ۔ ملاحظہ ہوستّر برس عمر پانے والے انسان کے مختلف مشاغل میں صَرف ہونے والے وقت کو جمع کیا جائے تو نقشہ کچھ اِس طرح بنتا ہے
وہ 24 سال سوتا ہے
وہ 14 سال کام کرتا ہے
وہ 8 سال کھیل کود اور تفریح میں گذارتا ہے
وہ 6 سال کھانے پینے میں گذارتا ہے
وہ 5 سال سفر میں گذارتا ہے
وہ 4 سال گفتگو میں گذارتا ہے
وہ 3 سال تعلیم میں گذارتا ہے
وہ 3 سال اخبار رسالے اور ناول وغیرہ پڑھنے میں گذارتا ہے
وہ 3 سال ٹیلیوژن اور فلمیں دیکھنے میں گذارتا ہے

اگر یہ شخص پانچ وقت کا نمازی ہو تو مندرجہ بالا مشاغل میں سے وقت نکال کر 5 ماہ نماز پڑھنے میں صرف کرتا ہے یعنی زندگی کا صِرف 168 واں حِصّہ ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اتنا سا وقت نماز پڑھنے میں صرف کرنا بھی ہم پر بھاری ہو جاتا ہے ! ! !

اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

بڑائی کِس میں ہے ؟

بڑائی اِس میں ہے کہ
آپ نے کتنے لوگوں کو اپنے گھر میں خوش آمدَید کہا نہ کہ آپ کا گھر کتنا بڑا ہے
آپ نے کتنے لوگوں کو سواری مہیّا کی نہ کہ آپ کے پاس کتنی بڑی کار ہے
آپ کتنی دولت دوسروں پر خرچ کرتے ہیں نہ کہ آپ کے پاس کتنی دولت ہے
آپ کو کتنے لوگ دوست جانتے ہیں نہ کہ کتنوں کو آپ دوست سمجھتے ہیں
آپ محلہ داروں سے کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں نہ کہ کتنے عالیشان محلہ میں رہتے ہیں

برفاں دے گولے ۔ ملائی دی برف

پنجاب کے رہنے والے اگر اِن صداؤں سے واقِف نہیں تو پھر وہ کچھ نہیں جانتے ۔برفاں دے گولے ۔ ٹھنڈے تے مِٹھے ۔ پیئو تے جیو ۔ ۔ ۔ ملائی دی برف اے
پُرانی بات ہے ۔ ہم چند دن پہلے شمالی علاقوں میں کچھ دن قیام کے بعد واپس آئے تھے ۔ ہمارے ہاں کچھ مہمان آ گئے ۔ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو میں برفانی پہاڑوں کی تفصیل بتا رہا تھا کہ ایک بچّہ بولا “پھر تو وہاں کے بچّے خوب برف کے گولے اور آئس کریم کھاتے ہوں گے” ۔
لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی ميں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو
مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں
کئی اہل نظر اس کو بھی ڈسکو کی ادا سمجھے
بچارا کپکپایا جب کوئی فنکار سردی ميں

ایک در بند ہوتا ہے تو

جب خوشیوں کا ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو الله سُبحانُهُ و تعالٰی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نظریں بند دروازے پہ لگی رہتی ہیں اور ہم دوسرے کھُلنے والے دروازہ کی طرف دیکھتے ہی نہیں