اے دانشِ عیّار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
اے خواہشِ سرشار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
اے قلبِ فسُوں کار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
اے دیدہءِ پُر کار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
ہنگامہءِ افکار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
پِنہاں ہے جو اسرار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
رنگین غلافوں میں چھُپاتے ہو جنہیں تُم
روحوں کے وہ آزار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
کِن فتنوں کا ہے قُلزمِ باطن میں تموّج
اے مردِ ریاکار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
جورِ سرِ بازار تو ہے سب کی نظر میں
جُرم پسِ دیوار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
رنگینیءِ گُفتار سے مسحُور ہے محفل
اور غایتِ گفتار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
جَلوت میں تو کُچھ پاس رہا خلقِ خدا کا
خَلوت میں بھی سَرکار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
صَد ہا یہ مقامر کہ بھُلا بیٹھے خدا کو
کیا جِیت ہے،کیا ہار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
اِیمان کا عنوان لگا رکھا ہے جس پر
وہ جذبہءِ بِیمار ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
دُنیا تیرے کرتُوت کو دیکھے کہ نہ دیکھے
اے مردِ ڈرامہ باز ۔ خُدا دیکھ رہا ہے
ہوش پکڑ ۔ اے انسان
Leave a reply