کچھ لوگ کہتے ہیں “جب نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کے وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبہ کیا جو اس وقت پورا کرنا چنداں مشکل نہ تھا مگر نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ بات اس لئے گوارہ نہیں تھی کہ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لئے اقتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا
اول ۔ یہ بالکل غلط ہے کہ نواب جونا گڑھ نے پچاس ہزار بندوقیں مانگی تھیں ۔ نواب جونا گڑھ کے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتے ہی بھارت نے اپنی فوج جونا گڑھ میں داخل کر دی اور نواب جونا گڑھ کو مدد مانگنے کی مُہلت نہ ملی
دوم ۔ جونا گڑھ کے بعد جب بھارت نے جموں کشمیر میں زبردستی اپنی فوجیں داخل کر دی تھیں تو قائد اعظم نے پاکستانی افواج کے کمانڈر اِن چِیف جنرل گریسی کو بھارتی افواج کو روکنے کا حُکم دیا تھا ۔ اگر پاکستان کے پاس پچاس ہزار تو کیا اُس وقت دس ہزار رائفلیں بھی ہوتیں تو قائدِ اعظم کے حُکم کی خلاف ورزی کرنے کی بجائے اُس کی تعمیل کر کے جنرل گریسی ایک ہمیش زندہ شخصیت اور صاحب کے تمام پاکستانیوں کا ہِیرو بن جاتا
کچھ لوگ نظامِ حکومت سے بھی بے بہرہ ہیں ۔ حکومت چلانا گورنر جنرل کا کام نہیں تھا بلکہ وزیرِ اعظم کا تھا مگر آج تک کسی نے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے کوئی کام قائدِ اعظم سے مشورہ کئے بغیر سرانجام دیا ہو
قائدِ اعظم کو ڈاکٹر کی سخت ہدائت پر زیارت لے جایا گیا تھا ۔ یہ شہیدِ مِلّت نوابزادہ لیاقت علی خان کی سازش نہ تھی ۔ قائد اعظم کے معالجِ خاص کرنل الٰہی بخش کی لکھی کتاب پڑھ لیں
آٹھ سال آئین بننے نہ دینے” کی بات کرتے ہوئے لوگ بھُول جاتے ہیں کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان بننے کے چار سال بعد ہلاک کر دیا گیا تھا
مختصر بات یہ ہے کہ آئین اُس وقت کے پاکستان میں موجود آئی سی ایس افسروں (جن میں غلام محمد جو بعد میں غیر ملکی پُشت پناہی سے گورنر جنرل بن بیٹھا تھا بھی شامل تھا) نے نہ بننے دیا ۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دستور ساز ی کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے ارکان کا بار بار اِدھر اُدھر تبادلہ کردیا جاتا تھا ۔ اُس دور میں ہر افسر کو ٹرین پر سفر کرنا ہوتا تھا ۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ آئی سی ایس افسران حکومتِ برطانیہ کی پُشت پناہی سے سازشوں کا جال نوابزادہ لیاقت علی کی شہادت سے قبل ہی بُن چُکے تھے
لیاقت علی خان پر بہتان ۔ اور حقیقت ۔ قسط ۔ 2
Leave a reply