دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ 2 دہائیوں سے یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ قائداعظم کی دیگر سینکڑوں تقاریر جو شاید انہوں نے پڑھی نہیں میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کی بنیاد اسلام کو ہی بتایا گیا ہے ۔ متذکرہ تقریر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا پہلا خطاب تھا ۔ یہ تقریر نہ تو لکھی ہوئی تھی اور نہ تیار کردہ بلکہ فی البدیہہ تھی۔ اس تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے کہا تھا
”ہمیں اسی لگن کے ساتھ کام کا آغاز کرنا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اکثریت اور اقلیت کی حصہ داری ، ہندو طبقہ اور مسلم طبقہ کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی شیعہ سُنّی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن وشنواس کھتری اور بنگالی مدراسی وغیرہ ختم ہو جائیں گے ۔ درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں، یہ ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بہت پہلے آزاد ہو گئے ہوتے ۔ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم کو خاص کر 400 ملین نفوس کو محکومیت میں نہیں رکھ سکتی ۔ نہ کوئی قوم آپ کو زیر کر سکتی تھی اور نہ مغلوب رکھ سکتی تھی سوائے متذکرہ گروہ بندی کے ۔ اسلئے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ آپ آزاد ہیں ۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے ۔ آپ اپنی مساجد میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی دوسری عبادت کی جگہ ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کاروبار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے“۔ (پوری تقریر کا متن اِن شاء الله چند دن بعد)
بتایئے اس میں سے سیکولر کیسے اَخذ کیا گیا ؟
قائد اعظم نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل اسلامی تعلیمات کا ہی ایک جزو ہے
قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل لگ بھگ 100 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اُٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد 4 بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور مُلکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ اُنہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہیئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں
جنرل اکبر کے مطابق قائداعظم سے ملاقات میں اُس (جنرل اکبر) نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن بکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے بکس کو کھول کر چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے کھولا اور فرمایا ”جنرل یہ قرآن مجید ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے عرض کیا کہ ”آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو مُتنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے“۔ قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ ”کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا ؟“
پھر سٹینو کو بُلایا گیا اور قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حُکم جاری کر دیا کہ جس پر میری (جنرل اکبر کی) ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہا
کیا قائدِاعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ؟
Leave a reply