یہ نظم میں نے آٹھویں جماعت میں اُردو کی کتاب ”مرقع ادب“ میں پڑھی تھی
کیا خطا میری تھی ظالم تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر اِس ہَنسی کے دردناک انجام کو
میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہَنستا نام کو
شاخ نے آغوش میں کِس لُطف سے پالا مجھے
تُو نے مَلنے کے لئے بِستر پہ لا ڈالا مجھے
میری خُوشبُو سے بسائے گا بچھونا رات بھر
صبح ہو گی تو مُجھ کو پھینک دے گا خاک پر
پَتیاں اُڑتی پھِریں گی ۔ مُنتشِر ہو جائیں گی
رَفتہ رَفتہ خاک میں مِل جائیں گی کھو جائیں گی
تُو نے میری جان لی دَم بھَر کی زِینت کے لئے
کی جَفا مُجھ پر فقط تھوڑی سی فرحت کے لئے
دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے کو ہے
پَتی پَتی ہو چلی بے آب ۔ مر جانے کو ہے
پیڑ کے دو سبز پتے رنگ میرا اِن میں لال
جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہو گئی
حَیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہو گئی
تِتلیاں بے چین ہوں گی جب مجھے نہ پائیں گی
غَم سے بھَنورے روئیں گے اور بُلبلیں چِلائیں گی
دُودھ شبنم نے پلایا تھا ملا وہ خاک میں
کیا خبر تھی یہ کہ ہے بے رحم گُلچیں تاک میں
مہر کہتا ہے کہ میری کِرنوں کی محنت گئی
ماہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی
دیدہ حَیراں ہے کیاری۔ باغباں کے دِل میں داغ
شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گُل ہوا میرا چراغ
میں بھی فانی تُو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں
اِک قیامت ہے مگر مرگِ جوانی دہر میں
شوق کیا کہتے ہیں تُو سُن لے سمجھ لے مان لے
دِل کِسی کا توڑنا اچھا نہیں ۔ تُو جان لے