فاطمہ صغرٰی مر گئی
ہائیں وہ کون تھی؟
جناب وہ “کون“ نہیں تھی ہم کون ہیں؟
بروز پیر 25 ستمبر 2017ء محترمہ فاطمہ صغرٰی 84 سال کی عمر میں اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں
یہ وہی فاطمہ صغرٰی تھی جس نے 14 سال کی عمر میں دنیا کے سب سے بڑے سامراج کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں للکارا کہ اس کی کڑک آج بھی سُنائی دیتی ہے
قیام پاکستان کی تحریک اپنے آخری مرحلے میں تھی کہ مسلم لیگ نے سول سیکریٹریٹ کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا
کمشنر لوئیس نے فرعون کے انداز میں پریس کو بیان دیا کہ سیکریٹریٹ کے سامنے کی سڑک پر مسلم لیگ کو اس دن تک احتجاج نہیں کرنے دوں گا جب تک سیکریٹریٹ پر یونین جیک لہرا رہا ہے
فاطمہ مسلم لیگی جلوس میں شامل تھی اور فرعون کا بیان اس نے بھی سن رکھا تھا جلوس والوں نے تو دفعہ 144 توڑنا تھی لیکن 14 سالہ فاطمہ نے فرعون کا غرور توڑنا تھا۔ کمزور سی فاطمہ نے 10 فٹ اُونچا پھاٹک پھلانگا ۔ ایک سنتری اس کی جانب بڑھا تو فاطمہ نے اپنی انگلیاں اس کی آنکھوں میں کھبو دیں ۔ ابھی وہ اور اس کے ساتھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ فاطمہ پرنالے سے لٹکتی چھت پر جا پہنچی یونین جیک کو اُتار پھینکا اور سبز ہلالی پرچم لہرا دیا
چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ سیکریٹریٹ کے دالان میں کمشنر کھڑا منظر دیکھ رہا تھا ۔ سیکریٹریٹ کے پول پر مسلم لیگ کا پرچم لہرا رہا تھا اور پھاٹک کے باہر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا نعرہ گونج رہا تھا
اور دنیا کے سب سے بڑے سامراج کا پرچم 14 سالہ فاطمہ صغرٰی کے جوتے کے نیچے پڑا تھا
فاطمہ گرفتار ہوئی جیل گئی لیکن فاطمہ ہمیں بتا گئی کہ وہ “کون“ نہیں تھی ہم کون ہیں؟