کچھ روز قبل محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک قتل کے ملزم کی رہائی کا حکم دیا جو 10 سال سے ایک غلط شناخت پریڈ کے باعث جیل میں تھا
جس کے بیٹے کے قتل میں وہ گرفتار تھا اس نے کہا ” آخر میں اپنے بیٹے کے قاتل کو کہاں تلاش کروں ؟ میں اب تک 3 کروڑ روپیہ خرچ کر چکا ہوں“۔
یہ خبر سُن کر میرا دماغ ماضی کو کُریدنے لگا اور کچھ ایسی ہی واقعات یاد داشت پر اُبھرنے لگے جو اخبارات کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے
یہ واقعہ 1985ء کی دہائی کا ہے کہ ایک قیدی کو جب 27 سال بعد سینٹرل جیل کراچی سے رہا کیا گیا تو اس نے Jailer سے کہا
”صاحب ۔ مجھے یہاں رکھا کیوں گیا تھا ؟ میں کہاں جاؤں گا ؟ مجھے یہیں رہنے دیں“۔
ہوا یوں کہ کسی طرح سیشن عدالت کے پیش کار کا کہا کہ ” ایک غریب آدمی کئی سالوں سے جیل میں ہے مگر مقدمہ ہے کہ چلتا ہی نہیں“ اخبار میں چھپ گیا ۔ معاملہ چیف جسٹس ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوا اور اُسے رہائی مل گئی ۔ رہائی کے وقت اس شخص کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر چیف جسٹس صاحب نے پوچھا ”کہاں جاؤ گے ؟ پیسے ہیں ؟“
اس نے جواب دیا ” پتا نہیں کہاں جاؤں گا ۔ پیسے کہاں ہیں میرے پاس“۔
چیف جسٹس صاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ”یہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ جس شخص نے اسے بند کرایا وہ مل جائے تو میں اُسے نشان عبرت بنادوں“۔
انصار برنی اُسے اُس کے گاؤں لے گیا مگر نہ گھر ملا نہ گھر والے ۔ واپس کراچی آ گیا اور باقی زندگی Shelter Home میں گزاری
ایک شخص اختر پاگل نہیں تھا لیکن اس نے 35 سال پاگل خانے میں گزار دیئے ۔ کیوں ؟
ایک ذہنی مریضہ تھی Mental Hospital میں داخل تھی جہاں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی اور وہ اختر کو جنم دے کر دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ اختربڑا ہوا تو اسے پاگل خانے سے جانے کی اجازت نہ ملی ۔ جب رہائی ملی تو اسے باہر کی دنیا کا علم ہی نہیں تھا ۔ سڑک کیسے پار کرتے ہیں ۔ سگنل کیا ہوتا ہے ۔ وہ لوگوں سے بات کرتا تو لوگ اسے پاگل سمجھتے ۔ کچھ عرصے بعد وہ واپس اُسی پاگل خانے میں چلا گیا اور درزی کا کام شروع کر دیا
مختار بابا گانا بہت اچھا گاتا تھا اور ایسے ہی ایک گانے سے اس کی رہائی ممکن ہوئی
ایوب خان کا دورِ تھا اور وہ پشاور میں نوکری کرتا تھا۔ جہاں وہ کام کرتا تھا وہاں کے ایک بارسوخ افسر کا اس کی بیوی پر دل آگیا۔ اس نے کسی بات پر یا اس کا بہانہ بناکر اسے دفعہ 109(آوارہ گردی) میں بند کروا دیا ۔ ایوب خان کے بعد یحیٰ خان کا دور بھی گزر گیا ۔ ایک دن ایک وزیر جیل کے دورے پر گیا ۔ اس کا گانا سنا تو آواز سے بہت متاثر ہوا اور اس طرح رہائی ممکن ہوئی۔ جب وہ گھر لوٹا تو اس کی بیوی افسر کی اہلیہ بن چکی تھی
ہمارے مُلک میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اعلٰی عدلیہ سزائے موت کے خلاف اپیل منظور کر کے رہائی کا حکم دیتی ہے مگر خبر جب جیل پہنچتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ قیدی کو تو 2 دن قبل پھانسی دی جا چکی ہے
اب ذرا سیاستدانوں کی بھی سُن لیجئے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما صدیق الفاروق کے خلاف NAB کی تحقیقات کی خبر آئی تو جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کا واقعہ یاد آیا جب صدیق الفاروق ڈھائی سال قید میں رکھ کر نیب والے بھول گئے اور یاد آیا اُس وقت آیا جب معاملہ سپریم کورٹ میں پہنا اور پوچھا گیا کہ صدیق الفاروق کہاں ہیں ۔ اُس وقت کے اٹارنی جنرل نے عدالت میں اعتراف کیا کہ صدیق الفاروق کو گرفتار کر کے وہ بھول گئے تھے
اصغر خان کیس سے کون واقف نہ ہو گا لیکن بہت ہی کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ اس مقدمے کے مرکزی کردار یونس حبیب 1995ء (نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت) میں مہران بنک سکینڈل (المعروف مہران گیٹ) میں 10 سال قید کی سزا ہوئی تھی کیسے بہت جلد یعنی بینظیر کے دورِ حکومت (1996ء تا 1997ء) میں خلافِ قانون رہائی دی گئی ۔ اس رہائی کا سب سے حیران کن پہلو یہ تھا کہ رپورٹوں میں کبھی یونس حبیب کا بلڈ گروپ کچھ لکھا گیا اور کبھی کچھ اور