Yearly Archives: 2018

ہم اِتنے بے عِلم کیوں ؟

ناجانے ہمارے مُلک میں کِس کا زَور چلتا ہے کہ تاریخ کو مَسَخ کیا جاتا ہے ۔ حقائق کو بدل دیا جاتا ہے ۔ آج اِس کی ایک مثال پیشِ خدمت ہے

ایک صاحب جنہوں نے اپنا قلمی نام عاشُور بابا رکھا ہے لکھتے ہیں
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب عوامی نیشنل پارٹی کے راہنماؤں کو پاکستان میں حراست میں لیا گیا تو ایک ایسا شخص تھا جو بہت ہی خستہ حال تھا ۔ اس کو گرفتار کر کے حیدرآباد جیل لایا گیا ۔ جیلر نے اس پریشان حال شخص کو دیکھا اور حقارت سے کہا ”اگر تم عبدالولی خان کے خلاف بیان لکھ کر دے دو تو ہم تم کو رہا کر دیں گے ورنہ یاد رکھو اس کیس میں تم ساری عمر جیل میں گلتے سڑتے رہو گے اور یہیں تمہاری موت ہو گی“۔
یہ سُن کر اس شخص نے جیلر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور مسکرا کر کہا ” جیلر صاحب ۔ جیل میں تو شاید میں چند برس زندہ بھی رہ لوں لیکن اگر میں نے یہ معافی نامہ لکھ دیا تو شاید چند دن بھی نہ جی پاؤں“۔

اصولوں اور عزم و ہمت کی اس دیوار کا نام حبیب جالب تھا اور اس کو جیل میں بھیجنے والا اپنے وقت کا سب سے بڑا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا
میں کل سے حیرت کا بُت بنا بیٹھا ہوں جب سے میں نے بلاول زرداری کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر حبیب جالب کا کلام پڑھتے دیکھا اور کلام بھی وہ جو اس نے بھٹو کے دور میں لکھا تھا ۔ آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہو کہ بھٹو دور میں حبیب جالب نے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور الیکشن ہارنے کے بعد وہ بھٹو کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے ۔ ان کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ان کو اس کیس سے بری کیا گیا تھا
کاش کہ بلاول کو تاریخ سے تھوڑی سی بھی آگہی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا کہ عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کا بیشتر کلام بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا جس میں سے ایک مشہور نظم پیش خدمت ہے

میں پسرِ شاہنواز ہوں ۔ میں پدرِ بے نظیر ہوں
میں نِکسَن کا غلام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پِیر ہوں ۔ میں لکھ پتی فقیر ہوں
وِہسکی بھرا اِک جام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزِیر ہیں ۔ سارے بے ضمیر ہیں
میں اِن کا بھی امام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو ۔ میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں

کل جب بھٹو کی برسی پر بلاول حبیب جالب کا کلام پڑھ رہے تھے تو بھٹو دور میں ہونے والے مظالم میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ حبیب جالب پر اتنا ظُلم ایوب خان اور ضیاءالحق جیسے آمروں کے دور میں نہیں ہوا جتنا ظُلم قائد عوام اور جمہوری لیڈر بھٹو کے دور میں ہوا ۔ جس دن بھٹو نے حبیب جالب کو گرفتار کروایا تھا اس دن جالب کے بیٹے کا سوئم تھا اور وہ چاک گریبان کے ساتھ جیل میں گئے تھے اور اُن کی اپنے بیٹے کی یاد میں لکھی نظم ایک تاریخی انقلابی نظم ہے

کاش کوئی یہ سب باتیں جا کر بلاول کو بتائے کہ رَٹی رَٹائی تقریریں کر لینا بہت آسان ہے لیکن بہتر ہو اگر آپ ان باتوں کا تاریخی پسِ منظر بھی جان لو ۔ جیسی جاہل یہ قوم ہے ویسے ہی جاہل اور تاریخی حقائق سے نابلد اِن کے لیڈر

اُسی دَور میں حبیب جالِب نے یہ اشعار بھی پڑھے تھے مگر 1988ء میں یا اِس کے بعد میڈیا نے اِن اشعار کو ضیاء الحق سے منسُوب کر دیا تھا

دِیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پَلے
ایسے دستُور کو ۔ صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختہءِ دار سے
میں بھی منصُور ہوں کہہ دو اَغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زِنداں کی دیوار سے
ظُلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھُول شاخوں پہ کھِلنے لگے تُم کہو
جام رِندوں کو ملنے لگے تُم کہو
چاک سِینوں کے سِلنے لگے تُم کہو
اس کھُلے جھُوٹ کو ذہن کی لُوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

خوش رہنے کا آسان طریقہ

کسی کی مدد یا کام معاوضے کے خیال کے بغیر کرنا خوشی لاتا ہے
اپنے آپ کو دھوکہ نہ دیجیئے کہ آپ دوسرے کی بھلائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ اچھائی اپنی ز ندگی بہتر بنانے کیلئے کرتے ہیں
کسی کی تنقید یا کسی کو نصیحت کرتے وقت خیال رکھیئے کہ جو بُرائی آپ دوسرے میں دیکھتے ہیں وہ آپ میں بھی ہوتی ہے ورنہ وہ بُرائی آپ کو نظر نہ آتی
اللہ کسی دوسرے سے کہا گیا آپ کا ہر لفظ پرکھے گا ۔ اسلئے بولنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیجیئے کہ جو آپ کہنے لگے ہیں وہ بلا شک و شُبہ درست ہے

سورت 2 البقرۃ ۔ آیت 44 ۔ کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حُکم کرتے ہو ؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو ۔ کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ؟

صرف محبت یا پیار ہی ایسی چیز ہے جو تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتی
تنازعہ پر مل کر کام کر کے اسے حل کرنے سے محبت مضبوط ہوتی ہےمحبت

روزمرّہ کا معمول ؟

عبادت دل کا بوجھ کم کرتی ہے
بغیر ذاتی فائدہ کے کسی کی مدد اللہ پر یقین کا ثبوت ہے
بُرائی اور گناہ سے بچنا شان بڑھاتا ہے
اگر آپ اچھائی کرتے ہیں تو قرآن شریف آپ کی کامیابی کا ثبوت ہے
اگر آپ غلط کام کرتے ہیں تو قرآن شریف آپ کی قباحت یا ناکامی کا ثبوت ہے

80 سال بعد

یہ بنیادی طور پر 3 خاندانوں کا قصہ ہے ۔ پہلا خاندان واڈیا فیملی تھی ۔ خاندان کی بنیاد پارسی تاجر لوجی نصیر وان جی واڈیا نے بھارت کے
شہر سورت میں رکھی

فرنچ ایسٹ انڈیا اور برٹش ایسٹ انڈیا میں جنگ ہو چکی تھی ۔ برطانوی تاجر فرانسیسی تاجروں کو پسپا کر چکے تھے ۔ پلاسی کی جنگ بھی ختم ہو چکی تھی اور میسور میں ٹیپو سلطان بھی ہار چکے تھے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اب مغل سلطنت پر قبضے کے لئے برطانیہ سے مضبوط رابطے چاہیں تھے ۔ یہ رابطے بحری جہازوں کے بغیر ممکن نہیں تھے

لوجی واڈیا لوہے کے کاروبار سے وابستہ تھے ۔ وہ انگریزوں کی ضرورت کو بھانپ گئے چنانچہ انہوں نے 1736ء میں ہندوستان میں پہلی شِپنگ کمپنی کی بنیاد رکھ دی ۔ وہ سورت سے ممبئی منتقل ہوئے ۔ بحری جہاز بنانے کا کارخانہ لگایا ۔ ممبئی پورٹ بنائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ طاقتور تجارتی دھاگے میں پرو گئے ۔ انگریز بعد ازاں واڈیا گروپ سے بحری جنگی جہاز بھی بنوانے لگے

واڈیا گروپ نے 1810ء میں ایچ ایم ایس مینڈن کے نام سے دنیا کا دوسرا بڑا بحری جہاز بنایا ۔ امریکا نے 1812ء میں اس جہاز پر اپنا قومی ترانہ لکھا ۔ یہ دنیا میں بحری جہاز پر لکھا جانے والا پہلا امریکی ترانہ تھا ۔ واڈیا فیملی کے اردشیر کاؤس جی 1849ء میں امریکا گئے ۔ یہ امریکی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے پارسی تھے

یہ لوگ 1840ء تک 100 سے زائد بحری جنگی جہاز بنا چکے تھے ۔ یہ پوری دنیا میں اپنا تجارتی نیٹ ورک بھی پھیلا چکے تھے اور یہ دنیا میں جہاز رانی میں پہلے نمبر پر بھی آ چکے تھے ۔ واڈیا فیملی بعد ازاں کپڑا سازی ۔ فلم ۔ تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں بھی آ گئی ۔ لوجی واڈیا کے پوتے کے پوتے نوروجی واڈیا نے پونا میں پہلا پرائیویٹ کالج بنایا ۔ واڈیا فیملی نے 1933ء میں ممبئی میں اسٹوڈیوز اور فلم سازی کی کمپنیاں بنائیں ۔ جے بی ایچ واڈیا اور ہومی واڈیا فلمیں بنانے لگے اور یہ فیشن میگزین بھی چلانے لگے ۔ فیشن چینلز بھی اور ’’گوائیر‘‘ کے نام سے ائیر لائین بھی ۔ یہ بھارت میں اس وقت بھی بڑا کاروباری نام ہیں

پٹیٹ بھارت کا دوسرا تجارتی خاندان تھا ۔ یہ لوگ کپڑے کی صنعت سے وابستہ تھے ۔ سر ڈِنشا مانک جی پٹیٹ نے ہندوستان میں پہلی کاٹن مل لگائی تھی ۔ یہ ملکہ سے نائیٹ کا خطاب حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی بھی تھے ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ کی شادی ہندوستان کے پہلے ارب پتی رتن ٹاٹا کی بیٹی سائیلا ٹاٹا سے ہوئی تھی ۔ سائیلا ٹاٹا کی والدہ فرنچ تھیں ۔ ان کا نام سوزانا تھا ۔ وہ ہندوستان میں گاڑی چلانے والی پہلی خاتون تھی ۔ جہانگیر ٹاٹا سائیلا کے بھائی تھے ۔ یہ ٹاٹا گروپ کے چیئرمین تھے

سرڈنشا مانک جی پٹیٹ اور سائیلا ٹاٹا کے ہاں 1900ء میں ایک نہایت خوبصورت بچی پیدا ہوئی‘ بچی کا نام رتی بائی پٹیٹ رکھا گیا ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ نے بچی کو اپنے نوجوان دوست محمد علی جناح سے گھُٹی دلائی ۔ محمد علی جناح اس وقت ممبئی کے نامور وکیل تھے ۔ وہ ذہین ترین شخص کہلاتے تھے ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ چاہتے تھے اِن کی بیٹی محمد علی جناح کی طرح ذہین ثابت ہو ۔ سرڈِنشا پٹیٹ کی یہ خواہش بعد ازاں پوری ہوئی لیکن کس طرح یہ ہم آپ کو تیسرے خاندان کے تعارف کے بعد بتائیں گے

بھارت کا تیسرا خاندان جناح کہلاتا ہے ۔ خاندان کے بانی پریم جی بھائی تھے ۔ یہ گجرات کاٹھیاواڑ کے رہنے والے تھے ۔ وہ مذہباً ہندو تھے ۔ اُنھوں نے اسلام قبول کیا اور تجارت شروع کر دی ۔ کراچی اس زمانے میں چھوٹا سا ساحلی قصبہ تھا ۔ یہ مچھیروں تک محدود تھا ۔ یہ شہر 1870ء میں اچانک اہمیت اختیار کر گیا ۔ کیوں؟ وجہ بہت دلچسپ تھی ۔ انگریز نے 1859ء میں مصر میں نہر سویز کھودنا شروع کی ۔ یہ نہر 10 سال بعد 1869ء میں مکمل ہو ئی ۔ نہر سویز نے بحیرہ روم کو بحیرہ احمر کے ساتھ ملا دیا ۔ بحری جہازوں کا فاصلہ 7000کلو میٹر کم ہو گیا ۔ نہر سویز سے قبل ممبئی ہندوستان کی واحد بندر گاہ تھی ۔ نہر کی وجہ سے یورپ اور ہندوستان کے درمیان تجارت میں 3 گناہ اضافہ ہوگیا

ممبئی کی بندرگاہ یہ بوجھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی ۔ انگریز کو نئی بندرگاہ کی ضرورت پڑ گئی ۔ کراچی قدرتی بندرگاہ تھا چنانچہ انگریز نے یہاں بندر گاہ بنانا شروع کر دی ۔ یہ بندر گاہ ہندوستان کے دوسرے درجے کے ہزاروں تاجروں کو کراچی کھینچ لائی ۔ ان تاجروں میں جناح پونجا بھی شامل تھے ۔ یہ 1875ء میں کراچی آئے اور ان کے ہاں 1876ء میں محمد علی پیدا ہوئے ۔ یہ والد کی مناسبت سے محمد علی جناح کہلانے لگے ۔ جناح پونجا کامیاب تاجر تھے ۔ یہ اپنا مال بحری جہازوں کے ذریعے یورپ بھجواتے تھے

اب صورت حال ملاحظہ کیجئے ۔ جناح پونجا تاجر ہیں ۔ یہ چمڑا اور سوتی کپڑا برآمد کرتے ہیں ۔ سوتی کپڑا پٹیٹ فیملی کی مِلوں میں بنتا ہے ۔ چمڑا پٹیٹ فیملی کے سسرالی ٹاٹا فیملی کی ٹینریز میں رنگا جاتا ہے اور یہ مال واڈیا فیملی کے جہازوں پر یورپ جاتا ہے ۔ یوں قدرت نے تینوں (چاروں) خاندانوں کے درمیان ایک دلچسپ تعلق پیدا کر دیا

اب ان تمام خاندانوں کی کُنجی محمد علی جناح کی طرف آتے ہیں ۔ قائداعظم 1896ء میں وکیل بن کر ممبئی آئے اور شہر کی سماجی زندگی میں تہلکہ مچا دیا ۔ یہ انگریزوں سے بہتر انگریزی بولتے تھے ۔ ان کے پاس 200 نہایت قیمتی سوٹ تھے ۔ یہ روز نیا سوٹ پہنتے تھے ۔ ان کی شخصیت میں دِل آویزی اور کشش بھی تھی ۔ پریکٹس بھی بہت اچھی تھی اور Social networking بھی کمال تھی ۔ انگریز افسر انہیں بہت پسند کرتے تھے چنانچہ یہ اس زمانے میں پٹیٹ ۔ ٹاٹا اور واڈیا تینوں خاندانوں کے لئے hot cake بن گئے

سر ڈِنشا پٹیٹ کے ہاں 1900ء میں رتی بائی پٹیٹ پیدا ہوئیں ۔ یہ ’’مسٹر جناح ۔ مسٹر جناح‘‘ کی آوازوں میں بڑی ہوئیں اور جوانی میں ان کی محبت کی اسیر ہو گئیں ۔ رتی بائی نے 1918ء میں اسلام قبول کیا ۔ یہ رتی سے مریم جناح بنیں اور نئی زندگی شروع کر دی ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ نے بیٹی کو عاق کر دیا ۔ ان سے Patent کا Title تک لے لیا گیا ۔ قائداعظم اور مریم اس زمانے میں ہندوستان کا خوبصورت اور ذہین ترین جوڑا تھا ۔ اللہ تعالٰی نے دونوں کو 15 اگست 1919ء کو خوبصورت بیٹی دینا عطا کی

دینا جناح لندن میں پیدا ہوئیں ۔ ماں اور باپ تھئیٹر دیکھ رہے تھے ۔ ایمرجنسی ہوئی ۔ یہ دونوں تھئیٹر سے سیدھے ہسپتال پہنچے اور دینا دنیا میں تشریف لے آئیں ۔ بیٹی ابھی بچی تھی کہ ماں باپ میں اختلافات ہو گئے ۔ والدہ گھر سے ہوٹل شفٹ ہو گئیں ۔ یوں دینا کا بچپن اداسی اور تنہائی کا شکار ہوگیا ۔ والدہ بیمار ہوئی اور 29 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں ۔ دینا کی عمر اس وقت 10 سال تھی ۔ والد کو بیوی کے غم اور سیاست نے نگل لیا ۔ بچی کی پرورش کی ذمے داری پھوپھی فاطمہ جناح پر آ گئی ۔ وہ یہ ذمے داری نبھاتی رہیں

دینا پارسی کمیونٹی کا حصہ تھیں ۔ وہ ممبئی کے پارسی کلب میں بھی جاتی تھیں اور پارسی فیملیز سے بھی ملتی رہتی تھیں ۔ یہ اس دوران واڈیا فیملی کے نوجوان نیولی واڈیا کی محبت میں گرفتار ہو گئیں ۔ والد نے شادی سے روکا ۔ یہ باز نہ آئیں ۔ دینا نے1938ء میں نیولی واڈیا سے شادی کر لی ۔ قائداعظم نے بیٹی سے قطع تعلق کر لیا ۔ نسلی واڈیا اور جمشید واڈیا 2 بیٹے ہوئے ۔ 1943ء میں طلاق ہو گئی لیکن طلاق کے باوجود باپ اور بیٹی میں فاصلہ رہا تاہم قائداعظم کے نواسے سرِ راہ اپنے نانا سے ملتے رہتے تھے

قائد اعظم ان سے بہت محبت سے پیش آتے تھے ۔ آپ انہیں تحفے بھی دیتے تھے جو عموماً 3 ہوتے تھے ۔ تیسرا تحفہ ہمیشہ بے نام ہوتا تھا ۔ یہ ایک باپ کا اپنی واحد بیٹی کے نام بے نام تحفہ ہوتا تھا ۔ ملک تقسیم ہو گیا ۔ قائداعظم کراچی تشریف لے آئے اور دینا واڈیا ممبئی رہ گئیں ۔ یہ بعد ازاں امریکہ مُنتقِل ہو گئیں ۔ قائد اعظم بیمار ہوئے ۔ 11 ستمبر 1948ء کو اِنتقال فرمایا ۔ وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے دِ ینا کو اطلاع دی ۔ خصوصی طیارہ ممبئی بھجوایا اور وہ والد کے آخری دیدار کے لئے پاکستان تشریف لے آئیں

وہ 2004ء میں دوسری اور آخری مرتبہ پاکستان تشریف لائیں‘ وہ شہریار خان کی درخواست پر میچ دیکھنے پاکستان آئی تھیں ۔ ان کے صاحبزادے نسلی واڈیا اور دونوں پوتے نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا بھی ان کے ساتھ تھے ۔ وہ اس وقت تک ہُوبہو قائداعظم کی تصویر بن چکی تھیں ۔ وہی ستواں ناک ۔ وہی تیز گرم نظریں اور وہی تحمکانہ لہجہ ۔ وہ آئیں تو لوگ بھول گئے وہ پارسی ہو چکی ہیں یا قائداعظم نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا ۔ لوگ ان کے پیروں کی خاک اُٹھا کر اپنے ماتھے پر لگاتے رہے ۔ وہ لاہور میں علامہ اقبال کے داماد میاں صلاح الدین کی حویلی بھی گئیں ۔ یوسف صلاح الدین کے ماتھے پر پیار کیا ۔ یہ اس وقت چین اسموکر تھے ۔ حُکم دیا ” آپ فوراً سگریٹ چھوڑ دو“۔ یوسف صلاح الدین نے اُسی وقت سگریٹ پینا بند کر دیا ۔ یہ پاکستان سے واپس امریکا چلی گئیں اور 2 نومبر 2017ء کو نیویارک میں انتقال کر گئیں

والد اور بیٹی دونوں با اصول تھے ۔ والد نے قطع تعلق کے بعد پوری زندگی بیٹی کی شکل نہیں دیکھی ۔ بیٹی نے بھی مرنے تک والد کی وراثت سے حصہ نہیں مانگا ۔ وہ صرف آخری عمر ممبئی میں قائداعظم کے گھر میں گزارنا چاہتی تھیں ۔ عدالت میں کیس چل رہا تھا لیکن عدالت اور بھارتی حکومت دونوں کا دل چھوٹا نکلا

جاوید چوہدری کا مضمون 7 نومبر 2017ء کو شائع ہوا

کمزوری یا مضبوطی ؟

اطلاع ۔ میں نے حسبِ سابق 4 دن بعد یعنی 23 مارچ 2018ء کو اِس دن کی مناسبت سے ایک تحریر تیار کر کے محفوظ کر رکھی تھی لیکن الله کو منظور نہ ہوا ۔ میں 20 مارچ کو تیز بخار ۔ شدید کھانسی اور نزلہ میں مُبتلاء ہو گیا اور 29 مارچ تک طبعیت کافی خراب رہی

کمزوری یا مضبوطی ؟
درُست کہ آپ کمزور ہیں
لیکن جو عوامل آپ کی کمزوری عیاں کرتے ہیں
وہی بالآخر آپ کو مضبوط بھی بناتے ہیں

زندگی کے تلخ لمحوں کو قبول کرتے ہوئے کوشش جاری رکھیئے
زندگی کے اُتار چڑھاؤ ہی تجربہ کار اور کامیاب انسان بناتے ہیں

”چُوہا “ یا ”چَوآ “۔ کیوں اور کیسے ؟

آپ نے کبھی دیکھا ہو گا کہ سبز چُگے میں ملبُوس ایک لڑکا یا لڑکی جس کا سر بہت چھوٹا ہے کسی عورت یا مرد کے ساتھ ہے اور بھیک مانگ رہا ہے ۔ اِنہیں”شاہ دولہ شاہ کا چوہا“ کہا جاتا ہے ۔ ”شاہ دولہ شاہ“ ایک نیک سیرت بزرگ تھے جن کا مزار گجرات (پاکستان) میں واقع ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ بھانج عورتیں شاہ دولہ شاہ کے مزار پر جا کر منت مانگتی ہیں کہ ان کے ہاں اولاد ہو جائے تو پہلا بچہ مزار کی نذر کر دیں گی چنانچہ اُن کی پہلی اولاد چھوٹے سر والی معذور پیدا ہوتی ہے جو وہ حسبِ وعدہ مزار پر چھوڑ جاتی ہیں ۔ لیکن معتقدین اور گجرات کے پڑھے لکھے لوگ ان تمام روایات کو من گھڑت کہانیاں کہتے ہیں ۔ اُن کے مطابق پہلا ہو یا بعد والا سب بچے بغیر کسی نقص کے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان اصحاب کا کہنا ہے کہ شاہ دولہ شاہ ایک نیک اور باعمل مسلمان تھے جو عوامی فلاح و بہبود کے کام بھی کرواتے رہے تو کیا ایسی نیک ہستیوں سے کوئی چیز مانگی جائے تو وہ خراب چیز دیں گے ؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ ” چُوہا “ نہیں تھا بلکہ ” چوآ “ تھا جو بگڑ کر ” چُوہا “ بن گیا ۔ ” چوآ “ کا مطلب ہوتا ہے ” چشمہ (spring)۔

ہم نے 1949ء یا 1950ء میں جھنگی محلہ (راولپنڈی) میں رہائش اختیار کی ۔ اُس کے بعد ہی میں نے پہلی بار ایسا بچہ دیکھا ۔ پھر ان کے متعلق کہانیاں سُننے میں آتی رہیں ۔ میں جب نویں جماعت میں تھا تو میں نے مختلف ذرائع سے ان کے متعلق معلومات اکٹھا کرنا شروع کیں اور انجنئرنگ کالج کے دوران (شاید 1959ء) اس سلسلہ میں میں گجرات کا چکر بھی لگایا تو وہ ساری کہانیاں غلط ثابت ہوئیں جو پہلے سُن رکھی تھیں

اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکمرانی (1658ء تا 1707ء) میں شاہ دولہ شاہ ایک نیک شخص گجرات کے نزدیک قیام پذیر ہوئے ۔ اِن کا اصلی نام تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گیا ۔ شاہ دولہ شاہ رفاہ عامہ کے کاموں میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ مغل بادشاہ اور اس کے گجرات کے علاقہ میں نمائندے ان سے قلبی لگاﺅ رکھتے تھے اور ان کے کئی طرح کے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے ۔ یہ وظائف شاہ دولہ شاہ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کرتے تھے ۔ انہوں نے شہر میں نہ صرف نالیاں تعمیر کراوئیں بلکہ اہم گزر گاہوں میں آنے والے نالوں پر پل بھی تعمیر کروائے ۔ مسجدیں اور مسافروں کے لئے سرائے بنوائیں ۔ علاقے کے بے سہارا اور مفلوک الحال بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لئے ادارے کی بنیاد رکھی اور یتیم خانہ کی عمارت بنوائی

کہا جاتا ہے کہ اِن کی وفات کے کچھ دہائیاں بعد ان کی قبر پر توہّم پرست لوگوں کا تانتا بندھ گیا ۔ قبر کے نام نہاد وارث بے اولاد عورتوں کو بیوقوف بناتے اور پہلا بچہ شاہ دولہ شاہ کی نذر کرنے کا کہتے ۔ ایسے بچے کو سخت چمڑے کی ٹوپی پہنا دی جاتی جس کی وجہ سے اُس کا سر چھوٹا ہی رہتا اور دماغ نشو و نما نہ پا سکتا ۔ یہ انسانیت سے گرے ہوئے لوگ ان بچوں کو بھیک مانگنے کے دھندہ پر لگا کر اپنی روزی پیدا کرتے ۔ جب اس طرح کے بچے زیادہ ہوئے تو انہیں ماہانہ کرایہ پر دیا جانے لگا یا خطیر رقم کے عِوض بیچ دیا جاتا ۔ اس طرح یہ ذہنی معذور بچے سارے مُلک میں پھیلا دیئے گئے ۔ ایسے بچے بھارت میں پائے جاتے ہیں

ڈاکٹر جانسٹن پہلا غیر مُلکی (برطانوی) تھا جو 1866ء میں شاہ دولہ شاہ کے مزار پر پہنچا ۔ اس نے بچوں کا مطالعہ کیا اور تحریر کیا کہ ان کے سر قدرتی چھوٹے نہیں ہوتے بلکہ بچپن میں ان کے سروں پر کوئی فولادی یا کسی اور سخت میٹِرِئل کی ٹوپی پہنائی جاتی ہو گی
کیپٹن ایونز جس نے 1902ء میں اس بارے میں تحقیق کی اُس کے بقول یہ ایک بیماری تھی اور اس طرح کے بچے اس نے برطانیہ میں بھی دیکھے ہیں

حکومت پاکستان نے 1969ء میں اس کاروبار کی ممانعت کا قانون بنایا اور اس پر عمل شروع ہوا ۔ ابتداء میں محکمہ اوقاف نے ایسے 9 بچے اپنی تحویل میں لے کر ان کی بحالی کا کام شروع کیا ۔ پھر ملک میں سیاسی گڑ بڑ شروع ہو گئی اور یہ کام رُک گیا ۔ عوامی دَور کے جولائی 1977ء میں خاتمہ کے چند سال بعد تک بھی یہ کام پس پشت پڑا رہا ۔ اس کے بعد کسی طرح یہ بات ضیاء الحق تک پہنچی اور کچھ اقدامات ہوئے ۔ پنجاب کی موجودہ حکومت نے اسے بھی اپنی اصلاحات میں شامل کیا ہوا ہے
یہ سب کچھ دراصل ان خاموش کام کرنے والے باعمل مسلمانوں کی محنت کا نتیجہ ہے کہ بات حکمرانوں تک پہنچائی جاتی رہی اور عمل بھی ہوتا رہا

پہلے ہر سال ایسے زیادہ بچے نذر کئے جاتے تھے ۔ 1969ء میں قانون بننے کے بعد تعداد میں کمی آنا شروع ہوئی ۔ اگر بعد کے سب حکمران توجہ دیتے تو شاید یہ قباحت ختم ہو چکی ہوتی ۔ کچھ سال قبل معلوم ہوا تھا کہ سالانہ نذر کئے جانے والے بچوں کی تعداد کم ہو کر ایک سے 3 سالانہ ہو گئی ہے ۔ کوئی عجب نہیں کہ جو شیر خوار بچے اغواء ہوتے ہیں اور ملتے نہیں وہ اسی انسانیت سے گرے مافیا کی کارستانی ہو جو اُنہیں خاص ٹوپیاں پہنا کر اپاہج بناتے اور اپنا مکروہ دھندہ چلاتے ہوں

ضرورت ہے کہ عوام کو قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف راغب کیا جائے ۔ الله کرے کے موجودہ حکومت کے نئے قانون پر سکول و کالج کے پرنسپل اور اساتذہ درست عمل کریں اور آئیندہ آنے والی نسلوں میں قرآن شریف کی سمجھ پیدا ہو

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہم لوگ تِکے ۔ پِزا اور برگر کھانے کے اخراجات کچھ کم کر کے اس سے ہونے والی بچت کے ساتھ اپنے علاقہ کی مسجد کے امام صاحب کا ماہانہ مشاہرہ اتنا کر دیں (کم از کم پے سکیل 17) کہ وہ باعزت زندگی گزار سکیں ۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی ذاتی پسند کا امام مسجد میں رکھنے کی بجائے حکومت سے رجسٹرڈ مدرسہ کا 8 سالہ کورس پاس کرنے والے کو امام مسجد رکھیں اور مسجد میں دکھاوے کیلئے جانے کی بجائے عِلم دین کے حصول اور الله کی خوشنودی کیلئے جائیں
الله ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

میرے خلاف proxies استعمال کی جا رہی ہیں

جسٹس شوکت عزیز صدیقی (جنہیں عدالت میں اپنے فوج مخالف ریمارکس کی وجہ سے Supreme Judicial Council کی جانب سے Sow Cause Notice جاری کیا گیا تھا) نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ”مدعی جمشید دستی (رُکن قومی اسمبلی) اور مِس کلثوم خالق (Advocate) صرف Proxies ہیں ۔ درحقیقت یہ شکایات کِسی اور کی اِیما پر درج کرائی گئی ہیں ۔ میرے پاس اِس حوالے سے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں جو میں ضرورت پڑنے پر پیش کروں گا“۔

جسٹس صدیقی نے کونسل کو اپنے جواب میں بتایا ہے کہ ”تاہم یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ مُختلف Operatorsنے مُ ختلف طریقوں سے مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ میں اِنتہائی مؤدبانہ انداز سے عرض کرتا ہوں کہ میرا ضمیر پاک اور میرے ہاتھ صاف ہیں۔ میں نے کسی بھی طرح کا کوئی غلط کام نہیں کیا اور سماعت کے دوران میرے ریمارکس یا مشاہدات Misconductکے زمرے میں نہیں آتے ۔ اُنہوں نے کہا کہ ”اگر کسی کو میرے فیصلوں میں دیئے گئے مشاہدات پر اعتراض ہے تو اِس کیخلاف Appeal دائر کی جا سکتی ہے اور Supreme Courtعدالتی اقدار اور طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اِن فیصلوں میں سے میرے ریمارکس یا مشاہدات حَذف کر سکتی ہے

جسٹس صدیقی نے حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کو ختم کرانے کیلئے کئے گئے معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ”تمام ادارے بشمُول مسلح افواج آئین کی پیداوار ہیں اور اِسی لئے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ آئین سے آگے نہیں جا سکتے جس کے تحت وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہے نہ کہ اِس کے برعکس ۔ اُنہوں نے یاد دہانی کرائی کہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت مسلح افواج کو وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بیرونی جارحیت یا پھر جنگ سے پاکستان کو بچانا ہے اور قانون کے مطابق بلائے جانے پر حُکام کی مدد کرنا ہے ۔ آئینی عدالتیں پابند ہیں کہ وفاقی حکومت اپنے فرائض آئین کے تحت انجام دے اور اس کے ماتحت ادارے اس کی کمان میں رہتے ہوئے اِسی طرح کام انجام دیں“۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اُن کی سمجھ بوجھ کے مطابق متنازع معاہدے کو انتظامی بندوبست نہیں کہا جا سکتا ۔ بجائے اس کے یہ ایک غیر آئینی دستاویز تھی جسے ایسے ماحول میں تیار کیا گیا جسے آئینی اور قانونی Frame Workنہیں کہا جا سکتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”اِس طرح دستاویزات پر دستخط کرانے اور مظاہرین میں سینئر عہدیدار کی جانب سے پیسے بانٹنے کے اقدامات کو اُس عہدیدار کی آئینی ذمہ داری نہیں کہا جا سکتا۔ درحقیقت چند لوگوں کے اِس طرح کے ناقابل قبول اقدامات کی وجہ سے Executive کا حصہ سمجھے جانے والے پورے ادارے کی عزت کو نقصان پہنچا ہے ۔ یہ بات Record پر ہے کہ دھرنے کی قیادت نے سُپریم کورٹ کے جج صاحبان اور معزز چیف جسٹس پاکستان کیخلاف اِنتہائی گھٹیا ۔ غلیظ اور گندی زبان کا استعمال کیا“۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ ’’کوئی بھی جج ایسے الفاظ کو کس طرح نظرانداز کر سکتا ہے کیونکہ یہ بحیثیت ایک ادارہ عدلیہ کے وقار ۔ عزت اور احترام کے خلاف تھے”۔ جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے آئین کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی Supreme Judicial Council کے وضع کردہ ضابطہ اِخلاق کے برعکس کوئی اِقدام کیا ہے ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ چونکہ Show Cause Notice میں ان کے بحیثیت جج اسلام آباد ہائی کورٹ کسی بھی طرح کے ریمارکس کے حوالے سے تفصیلات پیش نہیں کی گئیں لہٰذا میں کوئی مخصوص جواب یا پھر وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہوں“۔ اگرچہ جسٹس صدیقی نے درخواست کی ہے کہ شو کاز نوٹس خارج کیا جائے

انصار عباسی