کون بہتر ؟
حضرت انسان ؟
یا چوپائے ؟
فیصلہ خود کیجئے
Yearly Archives: 2018
جَبل حفِیت کی سیر
جَبل حفِیت کی سیر
ہم 30 دسمبر 2017ء بروز ہفتہ صبح ناشتہ کے بعد اِمپِرِئل ریزِیڈَینس (Imperial Residence) دبئی سے روانہ ہوئے ۔ 2 گھنٹے کی مسافت کے بعد جَبل حفِیت کی چوٹی پر پہنچے ۔ پہاڑوں کا یہ سلسلہ العین کا حصہ ہے جو امارت ابو ظہبی میں واقعہ ہے اور عمّان کی سرحد پر ہے
راس الخیمہ مین واقعہ جبَل جائس متحدہ عرب امارات کا سب سے اُونچا پہاڑ ہے اور اس کے بعد جبَل حفیت ہے
یہ سلسلہءِ کوہ شمالاً جنوباً تقریباً 26 کلو میٹر لمبا اور4 سے 5 کلو میٹر چوڑا ہے ۔ اِس کی اُنچائی 1249 میٹر (4098 فٹ) ہے
علاقہ کی مختصر تاریخ
دوسرے پہاڑ کی چوٹی کا منظر
نیچے وادی میں ایک رہائشی کالونی
ایک ہموطن کا ہم سے قبل کبھی اِس چوٹی پر آنے کا ثبوت
دجال کا خروج
دجال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں شخص (متعین) کا نام ہے ۔ جس کی فتنہ پردازیوں سے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اُمتوں کو ڈراتے آئے ۔ گویا دجال ایک ایسا خطرناک فتنہ پرور ہوگا جس کی خوفناک خدا دشمنی پر تمام انبیاء علیہم السلام کا اجماع ہے
وہ عراق و شام کے درمیانی راستہ سے خروج کرے گا
تمام دُنیا کو فتنہ و فساد میں مبتلا کردے گا
خدائی کا دعویٰ کرے گا
ممسوح العین ہوگا، یعنی ایک آنکھ چٹیل ہوگی (کانا ہوگا)
مکہ و مدینہ جانے کا ارادہ کرے گا۔ حرمین کی حفاظت پر مامور الله تعالیٰ کے فرشتے اس کا منہ موڑ دیں گے ۔ وہ مکہ و مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا
اس کے متبعین زیادہ تر یہودی ہوں گے
ستّر ہزار یہودیوں کی جماعت اس کی فوج میں شامل ہوگی
مقام لد پر سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوگا
وہ سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حربہ (ہتھیار) سے قتل ہوگا
اسلامی نقطہءِ نظر سے سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان کی قریباً 180 علامات آنحضرتﷺ سے منقول ہیں
سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی علیہ الرضوان کی تشریف آوری تواتر سے ثابت ہے
یہ اس سلسلہ کی آخری قسط تھی ۔ الحمدلله ۔ اُس باری تعالٰی کا جتنا بھی شُکر بجا لاؤں کم ہے جس نے مجھے اِس کام کی توفیق بخشی
مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کی شناخت
سیّدنا محمدﷺ کی احادیث کی روشنی میں مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کی مندرجہ ذیل شناخت بیان کی گئی ہیں
حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہوں گے
مدینہ طیبہ کے اندر پیدا ہوں گے
والد کا نام عبد الله ہوگا
ان کا اپنا نام محمد ہوگا اور لقب مہدی
چالیس سال کی عمر میں ان کو مکہ مکرمہ حرم کعبہ میں شام کے 40 ابدالوں کی جماعت پہچانے گی
وہ کئی لڑائیوں میں مسلمان فوجوں کی قیادت کریں گے
شام کی جامع دمشق میں پہنچیں گے تو وہاں سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا
سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد پہلی نماز حضرت مہدی علیہ الرضوان کے پیچھے ادا کریں گے
مہدی علیہ الرضوان کی کل عمر 49 سال ہوگی ۔ 40 سال بعد خلیفہ بنیں گے
سات سال خلیفہ رہیں گے
دو سال سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نیابت میں رہیں گے
اُنچاس سال کی عمر میں وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے
تدفین کے مقام کے متعلق احادیث میں صراحت نہیں البتہ بعض حضرات نے بیت المقدس میں تدفین لکھی ہے
سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور اس کی نشانیاں حدیث کے حوالے سے
سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام الله رب العزت کے وہ جلیل القدر پیغمبر و رسول ہیں جن کی رفع سے پہلی پوری زندگی زہد و انکساری مسکنت کی زندگی ہے
یہودی ان کے قتل کے درپے ہوئے الله تعالیٰ نے یہودیوں کے ظالم ہاتھوں سے آپ کو بچاکر آسمانوں پر زندہ اٹھالیا
قیامت کے قریب دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے
دو زرد رنگ کی چادریں پہن رکھی ہوں گی
دمشق کی مسجد کے مشرقی سفید مینار پر نازل ہوں گے
پہلی نماز کے علاوہ تمام نمازوں میں امامت کرائیں گے
حاکم عادل ہوں گے ۔ پوری دنیا میں اسلام پھیلائیں گے
دجال کو مقام لد (جو اسرائیلی فضائیہ کا ایئر بیس تھا اور اب بن گوریاں انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہے) پر قتل کریں گے
نزول کے بعد 45 سال قیام کریں گے ۔ طیبہ میں فوت ہوں گے ۔ رحمت عالمﷺ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ روضہ اطہر میں دفن کئے جائیں گے جہاں آج بھی چوتھی قبر کی جگہ ہے
عیسٰی علیہ السلام کا زندہ اُٹھایا جانا
سورت 4 النّساء آیات 155 تا 158 ۔ آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انہوں نے الله کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا اور یہاں تک کہا کہ ”ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں“۔ حالانکہ درحقیقت ان کی باطل پرستی کے سبب سے الله نے ان کے دِلوں پر مہر لگا دی ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں ۔ پھر اپنے کفر میں یہ اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا اور خود کہا کہ ”ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم ۔ رسول الله کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اُس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لئے مُشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ۔ ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے ۔ محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا ۔ بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔ الله زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے
ختمِ نبوّت منطقی حوالہ 2 ۔ نبی کب مبعوث ہوتے ہیں ؟
نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اُس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عملِ صالح میں ترقی کر کے اپنے آپ کو اس کا اہل بنا لیا ہو ۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جو کچھ خدمات کے صِلے میں عطا کیا جاتا ہو ۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر الله تعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے ۔ وہ ضرورت جب داعی ہوتی ہے تو ایک نبی اس کے لئے مامور کیا جاتا ہے اور جب ضرورت نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیاء پر انبیاء نہیں بھیجے جاتے
قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کِن کِن حالات میں پیش آئی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں
(1) کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا
(2) نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھُلا دی گئی ہو یا اس میں تحریف ہو گئی ہو اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو
(3) پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لئے مزید انبیاء کی ضرورت ہو
(4) ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لئے ایک اور نبی کی حاجت ہو
اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبی صلی الله علیہ و سلم کے بعد باقی نہیں رہی ہے
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (سورت 21 الانبیاء آیت 107) ۔ ترجمہ ۔ اے نبی ﷺ ، ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور دنیا کی تمدّنی تاریخ بتا رہی ہے کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپﷺ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے ۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی
قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا کہ حضور صلی الله علیہ و سلم کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے ۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے ۔ جو کتاب آپ لائے تھے اس میں ایک لفظ بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہو سکتی ہے ۔ جو ہدایت آپؐ نے اپنے قول و عمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپﷺ کے زمانے میں موجود ہیں ۔ اس لئے دوسری ضرورت بھی ختم ہو گئی۔
پھر الله تعالٰی قرآن مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضورﷺ کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کر دی گئی ۔
سورت 5 المآئدہ آیت 3 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ترجمہ ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔ لہٰذا تکمیل دین کے لئے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا
اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت ۔ اگر اس کے لئے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضورﷺ کے زمانے میں آپﷺ کے ساتھ مقرر کیا جاتا ۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ بھی ساقط ہو گئی ۔
اب ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ پانچویں وجہ کونسی ہے جس کے لئے آپﷺ کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو؟
اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لئے اِصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اِصلاح کے لئے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لئے وہ آئے ؟ نبی تو اس لئے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لئے ہوتی ہے یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لئے یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لئے ۔ قرآن اور سنتِ محمد صلی الله علیہ و سلم کے محفوظ ہو جانے اور دین کے مکمل ہو جانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ختم ہو چکی ہیں تو اب اصلاح کے لئے صرف مُصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیاء کی