ہم حُکمرانوں پر نُکتہ چِینی کرتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ سیاستدانوں پر نُکتہ چِینی کرتے ہیں
ہم سرکاری ملازمِین پر بھی نُکتہ چِینی کرتے ہیں
ہم ہر دوسرے آدمی میں غلطیاں نکاتے ہیں
مگر اِنجیل میں لکھے ” تُمہیں دوسرے کی آنکھ کا تِنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا “ کے مِصداق اپنے نقائص پر کبھی نظر نہیں ڈالتے
میں آج صرف ایک شاخ کا ذکر کروں گا ”ہمارا کردار سڑک پر“۔
میں اپنی گاڑی میں سوار جب سڑک پر پہنچتا ہوں تو ”روز ہوتا ہے اِک تماشہ میرے آگے“۔
میری کمزور سمجھ لیجئے یا احتیاط یا تربیت کہ میں ڈرائیونگ کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے گاڑی چلاتا ہوں ۔ یہ صرف اتفاق تھا کہ میں نے ڈرائیونگ 1967ء جرمنی کے شمال مغربی شہر Desseldorf میں ڈرائیونگ باقائدہ طور پر سیکھی ۔ اِس کے بعد میں نے پاکستان میں کبھی کبھی گاڑی چلائی پھر طرابلس (لبیا) میں ساڑھے 6 سال (مئی 1976ء تا جنوری 1983ء) خُوب گاڑی چلائی ۔ اِس کے بعد سے پاکستان میں خُوب گاڑی چلاتا رہا ہوں ۔ جون 1999ء میں نیو جرسی (امریکہ) میں بھی گاڑی چلانے کا موقعہ ملا ۔ گو میں نے دساور کے مقابلہ میں پاکستان میں کافی زیادہ عرصہ گاڑی چلائی ہے لیکن میں اپنے آپ کو وطنی ٹریفک کے مطابق نہیں ڈھال سکا
سڑک پر جو کچھ میں روزانہ دیکھتا ہوں اُس کا خُلاصہ یہ ہے ۔ میں بات ٹیکسی ڈرائیوروں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے خواتین و حضرات کی کر رہا ہوں جو بہترین لباس میں ملبوس قیمتی گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں
جب گاڑیاں زیادہ ہوں تو زیادہ ترلوگوں میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آگے نکل جائے لیکن جب گاڑیاں کم ہو جائیں تو وہی ڈرائیور ایسے گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں جیسے اُن کے پاس بہت وقت ہے جسے گزارنا ہے ۔ اگر پھر گاڑیاں زیادہ ہو جائیں تو وہ مزے مزے سے جانے والے خواتین وحضرات جوش میں آ کر پہلے کی طرح دوڑیں لگانے لگتے ہیں ۔ عام طور میں دیکھا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں بھگانے والے منزلِ مقصودپر مجھ سے بعد ہی پہنچتے ہیں
کئی خواتین و حضرات مڑنے کے لئے اشارہ دینا ضروری خیال نہیں کرتے ۔ اِس پر طُرّہ یہ کہ آپ کے داہنی طرف ہوتے ہوئے آپ کے آگے سے گزر کر بائیں جانب مڑ جاتے ہیں یا بائیں طرف ہوتے ہوئے آپ کے آگے سے گزر کر داہنی طرف مڑ جاتے ہیں ۔ یہ عمل بالخصوص چوراہے (چوک یا چورنگی) پر دیکھنے میں آتا ہے جب کوئی صاحب یا صاحبہ اچانک بائیں طرف آخری قطار میں ہوتے ہیں 3 یا 4 قطاروں کے آگے سے گزرتے ہوئے داہنی طرف چلے جاتے ہیں ۔ یا اِس کا اُلٹ
بلا وجہ ہارن بجاتے رہنے کی عادت اکثر خواتین و حضرات میں پائی جاتی ہے خاص کر جب آگے کوئی گاڑی جا رہی ہو اور آگے والی گاڑی کے لئے ہان بجانے والی گاڑی کو راستہ دینا ممکن نہ ہو
اچھوتا واقعہ جو میرے ساتھ 2 بار پیش آ چکا ہے ۔ میں سڑک کی بالکل بائیں طرف آہستہ کار چلا رہا ہوں کیونکہ مجھے بائیں طرف مُڑنا ہے اورموڑ قریب ہے ۔ بائیں طرف مڑنے کا اشارہ ٹم ٹما رہا ہے ۔ مجھے پیچھے سے متواتر ہارن کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ میرے داہنی طرف کافی پیچھے تک کوئی گاڑی نہیں ہے چنانچہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہارن کیوں بجایا جا رہا ہے ؟ پھر اچانک پیچھے والی کار میری داہنی طرف سے گزر کر سیدھی چلی جاتی ہے ۔ کار چلانے والی محترمہ میری داہنی طرف سے گزرتے ہوئے مجھے مکا دکھا جاتی ہیں ۔ اِس راز کا عُقدہ آج تک مُجھ پر افشاء نہیں ہوا
اِسی طرح ایک بار میں نے داہنی طرف مڑنا تھا ۔ موڑ قریب آنے پر میں نے داہنی طرف کا اشارہ on کر دیا پھر دیکھا کہ داہنی lane میں کافی پیچھے تک کوئی گاڑی نہیں تو داہنی lane میں چلاگیا ۔ 40 یا 45 سیکنڈ بعد پیچھے سے تیز آواز والے ہارن کی متواتر آواز شروع ہوئی ۔ پھر وہ گاڑی بڑی تیزی سے میری بائیں طرف سے ہوتی ہوئی اچانک میرے سامنے آکر کچھ دُور رُک گئی ۔ کار نئی بی ایم ڈبلیو تھی ۔ اسے چلانے والا قیمتی پوشاک میں ملبوس بڑی تیزی سے نکل کر میری طرف لپکا ۔ میں کار سے نکلنے ہی والا تھا کہ میرے پیچھے ایک High Bed Double Cab گاڑی آ کر رُکی اور اُس کا ڈرائیور بی ایم ڈبلیو والے کی سی تیزی سے باہر نکلا اور میری بائیں طرف سے گزرتے ہوئے مجھے رُکنے کا اشارہ کرتے ہوئے بی ایم ڈبلیو کے ڈرائیور کے قریب پہنچا اور بڑے رُعب سے اُسے گاڑی میں بیٹھ کر چلنے جانے کا اشارہ کیا ۔ جس پر بی ایم ڈبلیو والاچلا گیا ۔ کہا کیا میں نہیں سُن سکا ۔ بی ایم ڈبلیو والے نے شاید سمجھا تھا کہ میں کوئی بڑا افسر ہوں اور Double Cab میں Security Force ہے
اس طرح اللہ کریم نے مجھے بچا دیا ورنہ بی ایم ڈبلیو والا اپنی دولت کے نشہ میں ناجانے میری کیسی دُرگت بناتا
کئی ڈرائیور زبردستی اپنے بائیں یا داہنی طرف والی گاڑی کے آگے گھُس جاتے ہیں ۔ اور اُس بے چارے کو تیزی سے brake لگا کر اپنی گاڑی روکنا پڑتی ہے ۔ اسی طر ح ایک بار ایک صاحب نے بغیر اشارہ دیئے اچانک میرے سامنے زبردستی گھُستے ہوئے میری کار کی بائیں Head Light کی بائیں جانب dent ڈال دیا اور اشارہ والی لائیٹ توڑ دی ۔ اتفاق سے چند منٹ بعد ہم دونوں ایک ہی جگہ رُک گئے ۔ بجائے اس کے کہ میں اُن صاحب سے شکائت کرتا اُلٹا وہ مجھ پر برس پڑے اور فرمایا ” آپ کو ڈرائیونگ نہیں آتی ۔ آپ کی timing غلط ہے“ اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا ۔ لب و لہجہ مکمل کراچی والا تھا ۔ منہ سے پان کا تھوک بھی اُچھل رہا تھا
اُن کے چُپ ہونے پر میں نے کہا“ محترم ۔ میں فون کر کے ٹریفک سارجنٹ کو بلاتا ہوں ۔ وہ بتائے گا کہ کون غلطی پر تھا ۔ اس پر وہ کار بھگا کرچلے گئے جس سے معلوم ہوا کہ وہ مجھ پر غصہ نکالنے کے لئے رُکے تھے
جب ہم صرف ‘دوسرے’ کو ہی غلط سمجھیں گے تو ایسا ہی ہوتا ہے : )
میں تو سمجھی تھی یہ حرکتیں کراچی میں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔۔۔ ایک بات کا ذکر میں کردوں ۔۔۔ ایک۔تو رانگ سائڈ سے آئیں گے گاڑی/بائیک چلاتے ہوئے اور آپ کو ایسے گھوریں گے کہ جیسے آپ غلط۔چلا رہے ہوں گاڑی ۔۔۔ کچھ عرصہ پہلی بہنوں کے ساتھ گلشن اقبال میں واقع کے الیکڑک آفس کی طرف جانا ہوا تو وہاں روڈ پر موڑ پر مڑنے والی گاڑیوں نے وہ تباہی مچائی کہ ہمیں تقریبا” پانچ منٹ سے زیاد رانگ سائڈ چلانی پڑی گاڑی اور باقی سب پورا روڈ گھیر کر مزے سے جا رہے تھے ۔۔ اتنی اخلاقی سینس نہیں کہ ہمیں اپنی سائڈ جانےکا راستہ ہی دے دیں ۔۔۔ کافی دیر بعد کسی انسان کے بچے نے گاڑی روکی اور رکوائیں توہم نے اپنی سائڈ پکڑی۔