تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوّت سرگرم تقاضہ ہے
اس ذرّے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرّہ نہیں ۔ شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے ۔ بینا ہے ۔ توانا ہے
گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہء رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوس شوکت دلدائی کر
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
کلام ۔ علامہ محمد اقبال