مجھے 1990ء کی دہائی میں انجنیئرنگ یونیورسٹی طلباء کو خطاب کرنے کا کام سونپا گیا تھا ۔ میری اُس تقریر سے اقتباس
زمانہءِ حال سائنس اور انجنیئرنگ کا دور ہے ۔ اس اعلٰی تعلیمی دور میں ایک غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ لفظ انجنیئر کو انجن سے اخذ کیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں لفظ انجنیئر اور ingenious (تیز فہم ۔ ذہین) کا مادہ یا مصدر (root) لاطینی (Latin) زبان کا لفظ ingenerare ہے جس کے معنی تخلیق کرنے کے ہیں (to create)
Encyclopedia Britanica کے مطابق
Engineering is the professional art of applying science to the optimum conversion of sources of nature to benefit man
Encyclopedia of Science and Technology کے مطابق
Engineering, most simply is the art of directing the great resources of power in nature for the use and convenience of man
یہ بیانات تجربہ کار صاحبانِ دانش و فراست کے ہیں ۔ ان میں اہم موضوع قدرتی وسائل اور انسان کی منفعت ہیں
قدرتی وسائل اور قابلیت یا طاقت کا خالق کون ہے ؟ اور انسان کی منفعت کے کاموں کا حُکم کس نے دیا ؟
الله نے جو مالک و خالقِ حقیقی ہے اور کُل کائنات کا خالق و مالک بھی
پہلی بار 1785ء میں ایک فرانسیسی معروف سائنسدان Antoine Laurent Lavoisier نے کہا اور سب سائنسدان متفق ہیں کہ انسان مادہ کی نہ تو تخلیق کر سکتا ہے اور نہ مادہ کو فنا کر سکتا ہے البتہ مادہ کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کر سکتے ہیں
Matter can never be created nor destroyed. It can only be transformed from one form to another
مگر یہ حقیقت الله تعالٰی نے 14 صدیاں قبل قرآن شریف میں بتا دی تھی ۔ میرے مطالعہ کے مطابق اس سے قبل بھی الله کے پیغمبر اسی قسم کی بات کرتے رہے ۔ کچھ صدیاں قبل ایک فلسفی نے بھی یہ دعوٰی کیا تھا کہ ایسی بات تو عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے قبل بھی کہی گئی تھی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ علمِ سائنس نیا نہیں ہے بلکہ اوائلِ انسانیت سے موجود ہے
سائنس یا انجنیئرنگ اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنس کے اصولوں میں تجربہ اور مشاہدہ کے ساتھ ترمیم ہوتی رہتی ہے جبکہ قرآن شریف الله کا کلام ہونے کی وجہ سے ابد یعنی جب تک دُنیا ہے اٹَل ہے
انجنیئر بننے کا فیصلہ کرتے وقت طالب علم کو ذہین اور تخلیقی بننے کی خواہش رکھنا چاہیئے تاکہ وہ اپنے علم اور ذہن کو انسانیت کے مفاد میں استعمال کرے