ہمیں اِس کی اشد ضرورت ہے


آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے
لیکن
سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے ایسے لوگوں کو شاید پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی

یہ تحریر میں 16 مئی 2013ء کو شائع کر چکا ہوں

This entry was posted in تاریخ, ذمہ دارياں, روز و شب, سبق, طور طريقہ, معاشرہ, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

One thought on “ہمیں اِس کی اشد ضرورت ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.