Monthly Archives: July 2018

کہاں چلے گئے وہ بلاگر ؟

جی ہاں ۔ صرف پانچ سات سال پہلے جو جوان بلاگ لکھا کرتے تھے میں اُن کی بات کر رہا ہوں
کیا زمانہ تھا اور کتنا بھائی چارہ تھا آپس میں
ہر ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتا تھا
اِدھر میں نے مدد مانگی ۔ اُدھر مدد حاضر

حالانکہ سب جانتے تھے کہ میرا بڑا بیٹا زکریا کمپوٹر ہارڈ ویئر ۔ سافٹ ویئر اور بلاگنگ کا ماہر ہے
پہلا اردو بلاگز ایگریگیٹر (اُردو سیّارہ) ۔ اُردو محفل ۔ وغیرہ زکریا ہی نے بنائے تھے

میری مدد جن جوانوں نے کی اِن میں سے مندرجہ ذیل بغیر مدد مانگے ہی مدد کی پیشکش کرتے رہتے تھے
حارث بن خُرم
قدیر احمد جنجوعہ
جہانزیب اشرف
پرویز اُردو دان
حیدرآبادی

میں پچھلے چار سالوں میں تین بار مدد کی درخواست کر چکا ہوں لیکن مدد تو کُجا کسی نے حَوصلہ افزائی بھی نہ کی

آخری بار میں نے تین دِن قبل تمام قارئین سے مدد کی درخواست کی تھی
اِن تین دنوں میں 58 قارئین نے میری درخواست کو دیکھا لیکن میں مدد کی اِنتظار ہی میں رہا
آخر میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے مسئلہ حل کر دیا

مدد کی فوری ضرورت ہے

تمام محترمات اور تمام محترمان
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته

آپ سب سے درخوست ہے کہ کمپیوٹر کے سلسلے میں میری فوری طور پر مدد کریں

میرے laptop کی سکرین میں ایک تبدیلی آ گئی ہے اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اسے کیسے درست کروں
میں کچھ سال قبل ایسی ہی صورتِ حال سے دو چار ہوا تھا تو میں اُسے درست کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن اب مجھے یاد نہیں آ رہا کہ میں اُس وقت اِسے کیسے درست کیا تھا

1 ۔ top tool bar غائب ہو گیا ہے
2 ۔ نیچے تصویر دیکھیئے ۔ سکرین کے نِچلے حصے میں icon کھینچ کر لاتا ہوں تو واپس اُوپر بھاگ جاتا ہے

.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
3 ۔ سب documents اور browser بھی اس طرح کھلتے ہیں ۔ دیکھیئے نیچے دوسری تصویر

گوادر کی ہیرو (ایک تاریخی حقیقت)

آج کون کون جانتا ہے کہ پاکستان کیلئے لازوال محبت و ایثار کا جذبہ رکھنے والی ایک عظیم خاتون نے اپنی مدِمقابل 4 عالمی طاقتوں سے ایک قانونی جنگ لڑ کر 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مُشتمل گوادر جیسا اہم ترین ساحلی علاقہ پاکستان میں ضَم کروایا تھا ؟

آج ہر کوئی گوادر پورٹ کا کرَیڈِٹ تو لینا چاہتا ہے مگر اس عظیم مُحسن پاکستان کا نام کوئی نہیں جانتا جس نے دنیا کے 4 طاقتور اسٹیک ہولڈرز ۔ برطانوی پارلیمنٹ ۔ امریکی سی آئی اے ۔ ایران اور عمان سے چَومُکھی جنگ لڑ کر کھویا ہوا گوادر واپس پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا
مطالعہ پاکستان سے چِڑنے والے لوگ پاکستان کے خلاف پیش گوئیاں کرنیوالے نام نہاد دانشوروں کو صرف اسی لئے تقویّت دیتے ہیں کہ تعمیر پاکستان کو اپنا ایمان بنا کر اَنمِٹ نقُوش چھوڑ جانے والی تحریکِ پاکستان کی ان بے مثال ہَستیوں سے نئی نسل کہیں متاءثر نہ ہونے لگے ۔ یہ وہ خوفناک مطالعہ پاکستان ہے جس سے کچھ لوگوں کو پسینے آجاتے ہیں

بلوچی میں ”گوات“ کے معنی کھُلی یا تازہ ہوا اور ”دَر“ کے معنی دروازہ ہیں ۔ علاقہ گوات دَر جو گوادر کے نام سے مشہور ہوا 1956ء تک عالمی استعمار کے قبضہ میں تھا ۔ خان آف قلات مِیر نصِیر نُوری بلوچ نے 1783ء میں گوادر عمان کے حاکم کو سونپ دیا تھا ۔ جب خان آف قلات فوت ہو گیا تو اُس کے ورثاء نے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد زور آزمائی شروع ہوئی ۔ برطانیہ صلح جوئی کے بہانے شامل ہوا اور براجمان ہو گیا ۔ لگ بھگ سوا سو سال گوادر برطانیہ کے قبضہ میں رہا

قیام پاکستان کے بعد اُس وقت کے خان آف قلات نے جب اپنی جاگیر پاکستان میں ضَم کر دی تو پاکستان نے گوادر کا معاملہ اٹھایا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ امریکی سی آئی اے کی اِیماء پر شاہ ایران نے اسے چاہ بہار کے ساتھ ملانے کی تدبیر بنانا شروع کر دی اور امریکہ کے صدر نکسن برطانیہ پر دباؤ ڈالنے لگے کہ گوادر شاہ ایران کے حوالے کر دیا جائے

1956ء میں ملک فیروز خان نون نے وزارت خارجہ سنبھالی تو گوادر واگزار کرانے کا عہد کیا ۔ باریک بینی سے تمام  تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لیکر یہ مشن ایک تعلیم یافتہ باوقار خاتون کو سونپ دیاجنہوں نے برطانیہ میں پاکستان کی لابِنگ شروع کی اور مضبُوط دلائل کے ساتھ معاملہ برطانوی حکومت کے سامنے رکھا کہ ”قلات خاندان کی جاگیر اب پاکستان کی ملکیت تھی لہٰذا جاگیر کے اس حصے کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہیئے نیز یہ کہ پاکستان وہ تمام جاگیریں منسوخ کر چکا ہے جو معاوضے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے بانٹیں تھیں مزید یہ کہ اگر ہم اپنے قانون سے گوادر کی جاگیر منسوخ کرکے فوج کشی سے واگزار کرا لیں تو کامن ویلتھ کا رُکن ہونے کی وجہ سے برطانیہ پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتا“۔

محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم ۔ دلائل اور گفت و شُنِید سے جِیتی ۔ عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی مگر سودے بازی کا عندیہ دیا ۔ ملک فیروز خان نون جب وزیراعظم بنے تو ان کے چھ ماہ کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد عمان نے تین ملین ڈالر کے عوض گوادر کا قبضہ پاکستان کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ۔ ملک صاحب اپنی سوانح ”چشم دِید“ میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں ” جہاں مُلک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی ۔ ویسے بھی یہ رقم گوادر کی آمدنی سے محض چند سال میں پوری ہو جائے گی“۔ یوں دو سال کی بھر پُور عقلی جنگ کے بعد 8 ستمبر 1958ء کو گوادر کا 2400 مربع میل یا 15 لاکھ ایکٹر سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہو گیا

گوادر فتح کرنیوالی ملک و قوم کی یہ محسن پاکستان کے ساتویں وزیراعظم ملک فیروخان نون کی بیوی محترمہ وقارالنساء نون ہیں جن کی اس عظیم کاوش کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی اور انہیں قوم سے متعارف نہ کرانا ایک بے حسی کے سوا کچھ نہیں ۔ محترمہ نے تحریک پاکستان کو اُجاگر کرنے کیلئے خواتین کے کئی دَستے مرتب کئے اور سِول نافرمانی کی تحریک میں انگریز کی خضر حیات کابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلُوس منَظم کرنے کی پاداش میں تین بار گرفتار بھی ہوئیں۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لْٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے بہبودِ خواتین کی اوّلِین تنظِیم اَپوا کی بانی اراکین میں بھی آپ شامل تھیں ۔ وقارالنساء گرلز کالج راولپنڈی اور وقارالنساء اسکول ڈھاکہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی ۔ ہلال احمر کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں ۔ پاکستان کی محبت میں ان کا جذبہ بڑھاپے میں بھی سرد نہ پڑا ۔ ضیاء الحق کے دَور میں بطَور وزیر ، سیاحت کے فروغ کیلئے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف بخوبی راغب کیا ۔ برطانیہ میں مقیم ان کی بے اولاد بہن کی جائیداد جب انہیں منتقل ہوئی تو اس فنڈ سے انہوں نے ”وکی نون ایجوکیشن فاؤنڈیشن“ قائم کیا جو آج بھی سماجی خدمات کا چراغ جلائے ہوئے ہے ۔ محترمہ کی وصِیّت کے مطابق اس فنڈ کا ایک حصہ ان نادار مگر ذہین طلباء کو آکسفورڈ جیسے اداروں سے تعلیم دلوانے پر خرچ ہوتا ہے جو واپس آکر اس مملکتِ خدا داد پاکستان کی خدمت کرنے پر راضی ہوں

محترمہ وقارالنساء نون طویل علالت کے بعد 16 جنوری سن 2000ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ ایک عمرہ کرنے کے بعد انہوں نے وصیت کی تھی کہ مجھے غیر سمجھ کے چھوڑ نہ دینا بلکہ میری تدفین بھی ایک کلمہ گو مسلمان کی طرح انجام دینا۔ محترمہ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی ۔ ان کی اولاد وہ پاکستانی ہیں جو حُب الوطنی میں ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں ۔ محترمہ کو گوادر حاصل کرنے پر 1959ء میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ”نشان امتیاز“ عطا کیا گیا تھا مگر ان کا اصل انعام وہ عزت و احترام ہے جو ہم بطور قوم انہیں دے سکتے ہیں

جولائی کا الٹرا ساؤنڈ اور اگست کا بلیک باکس

اَن گِنت حُرّیَت پسندوں نے محکُوم قوموں کے لئے آزادی کی سیاسی جدوجہد کے اصول وضع کئے ۔ یہ آزادی محض غیرملکی حکمرانوں کو بے دَخَل کرنے کا نَصبُ العَین نہیں تھی۔ آزادی کی اس لڑائی کا حتمی نَصبُ العَین یہ تھا کہ اس زمین کے رہنے والے اپنی معاشی ۔ سماجی اور سیاسی صلاحیتوں کو برُوئے کار لاتے ہوئے انسانی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے ۔ دنیا کے ابھرتے ہوئے امکانات میں اپنا پورا پورا حق حاصل کر سکیں گے

اِسی اصول کے تحت آزادی محمد علی جناح اور اُن کے ساتھیوں نے آزادی کی جد و جہد کی ۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم شمالی یورپ کے جزیرے برطانیہ سے آنے والوں کو رُخصت کر کے مقامی طاقتور گروہوں کے غلام ہو جائیں جو نسل ۔ عقیدے اور بندوق کے بَل پر ہمارا اِستحصال کریں

جاننا چاہیئے کہ 25 جولائی 2018ء کی تصویر بدستور دھُندلی ہے ۔ اہلِ حُکم کا تھُوک ہمارے مقَدّس پرچم پر جم گیا ہے ۔ ہماری زمیں پَر زَور آور کے قدموں کے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمیں عِلم سے محروم کر کے تعصب اور نفرت میں اُلجھا دیا گیا ہے ۔ ہمارے قابل صد احترام آباؤاجداد کی سَتّر بَرس پر محیط قربانیوں سے ایک مرحلہ طے ہو گیا ہے ۔ اب ہماری کشمکش کسی ایک فرد یا منصب دار سے منسوب نہیں ہے ۔ ماضی میں ہم نے اپنے خوابوں کو فرد واحد کی ذات سے وابستہ کر رکھا تھا ۔ اب یہ کشمکش زیادہ اصولی اور ادارہ جاتی شکل اختیار گئی ہے ۔ ہمارے کچھ سیاسی رہنما آجکل اداروں کے احترام پر زور دے رہے ہیں ۔ ان کی رائے یقیناً وزن سے خالی نہیں ہو گی لیکن ان کی سوچ میں داخلی تضاد کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی چارہ نہیں

ہمارے یہ مہربان عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن ووٹ کی بالادستی کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں ۔ اگر انہیں ووٹ مانگتے ہوئے ایسے خدشات اور وسوسے لاحق ہیں تو کل جب یہ رہنما ووٹ سے تشکیل پانے والے اداروں میں رونق افروز ہوں گے تو ان کے دست و بازو پہلے سے قطع ہو چکے ہوں گے ۔ زمانے کا انقلاب دیکھیئے ۔ جو مہربان سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کو مک مکا قرار دیتے تھے اب سقوط جمہوریت کے دستاویزی شواہد پر شاداں و مسرور ہیں ۔ تاریخ کے یہ چیمبرلین اگر جولائی کے الٹرا ساؤنڈ سے خوف زدہ ہیں تو اگست کے بلیک باکس کا سامنا کیسے کریں گے ؟
وجاہت مسعود کی تحریر سے اقتباس

ووٹ کسے دیا جائے ؟ شرعی فتوٰی

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع بن محمد ياسین عثمانی دیوبندی (25 جنوری 1897ء تا 06اکتوبر 1976ء) صاحب کا ووٹ کے بارے میں تاریخی فتوی
جس اُمیدوار کو آپ ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریئے عِلم و عمل اور دیانتداری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں
1 ۔ آپ کا ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدمات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی ۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے
2 ۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے اسکا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے ۔ ثواب و عذاب بھی محدود ۔ قومی و مُلکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی اس کا ادنٰی نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے ۔ اس لئے اس کا ثواب یا عذاب بھی بڑا ہے
3 ۔ سچی شہادت کا چھپانا اَز رُوئے قرآن حرام ہے اس لئے اگر آپ کے حلقے میں صحیح نظریہ کا حامل کوئی دیانتدار اُمیدوار کھڑا ہے تو اس کو ووٹ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے
4 ۔ جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے
5 ۔ ووٹ کو پَیسوں کے عِوَض بیچ دینا بدترین قسم کی رِشوت ہے اور چند ٹَکوں کی خاطر اِسلام اور مُلک سے بغاوت ہے ۔ دوسروں کی دُنیا سنوارنے کے لئے اپنا دِین قُربان کر دینا چاہے کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسروں کی دنیا کے لئے اپنا دین کھو بیٹھے
(جواھر الفقہ ۔ جلد نمبر 2 ۔ صفحہ 300 و 301 ۔ مکتبہ دارالعلوم ۔ کراچی)

خرچ

سورة 2 البَقَرَة آیت 215
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ

لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا

گوٹھ نوّں پوترا کے مکینوں کا یادگار کردار

غالباً 29 جون 2018ء کو 27 اَپ شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے جب تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو محراب پور سے چند کلو میٹر آگے گوٹھ نوّں پوترا کے پاس اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیئے ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے ۔ ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا اور الحمدللّہ ٹرین ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی

سواریوں کو اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس تھا اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اچانک نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے ۔ سُبحان اللہ عجیب منظر تھا ۔ کسی نے پانی کا کولر اُٹھایا ہوا ہے ۔ کسی نے مٹکا ۔ کوئی جگ اُٹھائے ہے تو کوئی دودھ کا برتن ۔ کوئی بزرگ اپنی پگڑی میں برف لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں ۔ ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے ۔ غرض بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار اپنی استداد کے مطابق ہر کوئی کچھ نا کچھ لئے چلا آ رہا تھا ۔ چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی دیگ ایک رکشہ پر لائی گئی ۔ دیہاتیوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے ۔ چاول کھلانے کے لئے مٹی کی پلیٹیں لے آئے ۔ آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں
ہمدردی کے جذبہ سے سرشار گاؤں کے نیک سیرت سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ اُنہیں خدمت کا موقع ملا ۔ نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ جس کی وہ مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے ۔ کس ذات برادری ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ بس ایک ہی رشتہ تھا ۔ انسانیت کا ۔ پاکستانیت کا اور احسان کا کہ اللہ کا فرمان ہے
اللّہ تعالٰی ان سب کو جزائےعظیم دے ۔ ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرمائے ۔ آمین

اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا ۔ ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رُخصت کیا جاتا ہے

االلہ اللہ ۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے باری تعالٰی کی حمد کے ساتھ میری آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
مجھے اپنے دیہاتی بھائیوں کی ہمدردی اور مہمانداری کا تجربہ ہے ۔ میں جوانی میں سیر و سیاحت کا شوقین تھا ۔ جہاں بھی جاتا بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہات کی طرف چلا جاتا ۔ قصبہ یا گاؤں کے اندر سارا سفر پیدل ہی ہوتا تھا ۔ میں نے خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی سیر کی اور پہاڑوں کی بھی ۔ ہر قصبہ ہر گاؤں کے باسیوں کو میں نے مُخلص ہمدرد پایا ۔ اُن کی ایک اور عادت بڑے شہروں میں رہنے والوں سے مُختلف تھی ۔ وہ برملا سیدھی بات کرتے تھے ۔ کسی لفظ یا فقرے پر مٹھاس چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ مجھے یہ طور پسند آیا کیونکہ مجھے بھی آج تک کسی بات پر ملمع چڑھانا نہیں آیا ۔ میں محسوس کرتا رہا کہ وہ بھی میرے انداز سے خوش تھے

ہمارے مُلک سلطنتِ خدا داد پاکستان کے اکثر عوام ہمدرد ۔ دُکھ درد بانٹنے والے ۔ مصیبت میں کام آنے والے ۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناسی اور جذبہءِ خدمت و ایثار سے سرشار ہیں

جب میں اپنے مُلک کے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے اور اچھی مالی حالت والے لوگوں کی زبان سے سُنتا ہوں
”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔
”سب چور ہیں“۔
”سب بے ایمان ہیں“۔
تو میرا کلیجہ کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ اِن پڑھے لکھے جاہلوں کے ذہنوں میں ہالی وُڈ کی بنی مووی فلموں ۔ ٹی وی ڈراموں اور غیر مُلکی معاندانہ پروپیگنڈہ نے گھر کیا ہوا ہے ۔ یہ نہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں
اللہ ہم سب کو کریم ایسے ہموطنوں کو نیک ھدائت دے