جسٹس شوکت عزیز صدیقی (جنہیں عدالت میں اپنے فوج مخالف ریمارکس کی وجہ سے Supreme Judicial Council کی جانب سے Sow Cause Notice جاری کیا گیا تھا) نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ”مدعی جمشید دستی (رُکن قومی اسمبلی) اور مِس کلثوم خالق (Advocate) صرف Proxies ہیں ۔ درحقیقت یہ شکایات کِسی اور کی اِیما پر درج کرائی گئی ہیں ۔ میرے پاس اِس حوالے سے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں جو میں ضرورت پڑنے پر پیش کروں گا“۔
جسٹس صدیقی نے کونسل کو اپنے جواب میں بتایا ہے کہ ”تاہم یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ مُختلف Operatorsنے مُ ختلف طریقوں سے مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ میں اِنتہائی مؤدبانہ انداز سے عرض کرتا ہوں کہ میرا ضمیر پاک اور میرے ہاتھ صاف ہیں۔ میں نے کسی بھی طرح کا کوئی غلط کام نہیں کیا اور سماعت کے دوران میرے ریمارکس یا مشاہدات Misconductکے زمرے میں نہیں آتے ۔ اُنہوں نے کہا کہ ”اگر کسی کو میرے فیصلوں میں دیئے گئے مشاہدات پر اعتراض ہے تو اِس کیخلاف Appeal دائر کی جا سکتی ہے اور Supreme Courtعدالتی اقدار اور طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اِن فیصلوں میں سے میرے ریمارکس یا مشاہدات حَذف کر سکتی ہے
جسٹس صدیقی نے حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کو ختم کرانے کیلئے کئے گئے معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ”تمام ادارے بشمُول مسلح افواج آئین کی پیداوار ہیں اور اِسی لئے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ آئین سے آگے نہیں جا سکتے جس کے تحت وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہے نہ کہ اِس کے برعکس ۔ اُنہوں نے یاد دہانی کرائی کہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت مسلح افواج کو وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بیرونی جارحیت یا پھر جنگ سے پاکستان کو بچانا ہے اور قانون کے مطابق بلائے جانے پر حُکام کی مدد کرنا ہے ۔ آئینی عدالتیں پابند ہیں کہ وفاقی حکومت اپنے فرائض آئین کے تحت انجام دے اور اس کے ماتحت ادارے اس کی کمان میں رہتے ہوئے اِسی طرح کام انجام دیں“۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اُن کی سمجھ بوجھ کے مطابق متنازع معاہدے کو انتظامی بندوبست نہیں کہا جا سکتا ۔ بجائے اس کے یہ ایک غیر آئینی دستاویز تھی جسے ایسے ماحول میں تیار کیا گیا جسے آئینی اور قانونی Frame Workنہیں کہا جا سکتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”اِس طرح دستاویزات پر دستخط کرانے اور مظاہرین میں سینئر عہدیدار کی جانب سے پیسے بانٹنے کے اقدامات کو اُس عہدیدار کی آئینی ذمہ داری نہیں کہا جا سکتا۔ درحقیقت چند لوگوں کے اِس طرح کے ناقابل قبول اقدامات کی وجہ سے Executive کا حصہ سمجھے جانے والے پورے ادارے کی عزت کو نقصان پہنچا ہے ۔ یہ بات Record پر ہے کہ دھرنے کی قیادت نے سُپریم کورٹ کے جج صاحبان اور معزز چیف جسٹس پاکستان کیخلاف اِنتہائی گھٹیا ۔ غلیظ اور گندی زبان کا استعمال کیا“۔
اُنہوں نے سوال کیا کہ ’’کوئی بھی جج ایسے الفاظ کو کس طرح نظرانداز کر سکتا ہے کیونکہ یہ بحیثیت ایک ادارہ عدلیہ کے وقار ۔ عزت اور احترام کے خلاف تھے”۔ جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے آئین کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی Supreme Judicial Council کے وضع کردہ ضابطہ اِخلاق کے برعکس کوئی اِقدام کیا ہے ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ چونکہ Show Cause Notice میں ان کے بحیثیت جج اسلام آباد ہائی کورٹ کسی بھی طرح کے ریمارکس کے حوالے سے تفصیلات پیش نہیں کی گئیں لہٰذا میں کوئی مخصوص جواب یا پھر وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہوں“۔ اگرچہ جسٹس صدیقی نے درخواست کی ہے کہ شو کاز نوٹس خارج کیا جائے