نبوت کا معاملہ ایک بڑا ہی نازک معاملہ ہے ۔ قرآن مجید کی رُو سے یہ اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے
سورت 2 البقرۃ آیت 285 ۔ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ
ترجمہ ۔ رسول ﷺ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ”ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے حُکم سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ۔ ہم تُجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے“۔
ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر ۔ ایسے نازک معاملے میں تو الله تعالیٰ سے کسی بے احتیاطی کی بدرجۂ اولیٰ توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اگر محمد صلی الله علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہوتا تو الله تعالیٰ خود قرآن میں صاف صاف اس کی تصریح فرماتا ، رسول الله صلی الله علیہ و سلم کے ذریعہ سے اس کا کھُلا کھُلا اعلان کراتا اور حضور دنیا سے کبھی تشریف نہ لے جاتے جب تک اپنی اُمت کو اچھی طرح خبردار نہ کر دیتے کہ میرے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور تمہیں ان کو ماننا ہو گا ۔ آخر الله اور اس کے رسول ﷺ کو ہمارے دین و ایمان سے کیا دُشمنی تھی کہ حضورﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ تو کھُلا ہوتا اور کوئی نبی آنے والا بھی ہوتا جس پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہ ہو سکتے مگر ہم کو نہ صرف یہ کہ اس سے بے خبر رکھا جاتا بلکہ اس کے برعکس الله اور اس کا رسول دونوں ایسی باتیں فرما دیتے جن سے تیرہ سو برس تک ساری اُمت یہی سمجھتی رہی اور آج بھی سمجھ رہی ہے کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے
اب اگر بفرضِ محال نبوت کا دروازہ کھُلا بھی ہو اور کوئی نبی آ بھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کر دیں گے ۔ خطرہ ہو سکتا ہے تو الله تعالیٰ کی باز پُرس ہی کا تو ہو سکتا ہے ۔ وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم یہ سارا ریکارڈ برسر عدالت لا کر رکھ دیں گے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ معاذ الله اس کُفر کے خطرے میں تو الله کی کتاب اور اس کے رسول کی سُنّت ہی نے ہمیں ڈالا تھا ۔ ہمیں قطعاً کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ ریکارڈ کو دیکھ کر بھی الله تعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان نہ لانے کی سزا دے ڈالے گا لیکن اگر نبوت کا دروازہ فی الواقع بند ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی مُدعی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اسے سوچ لینا چاہیئے کہ اس کفر کی پاداش سے بچنے کے لئے وہ کون سا ریکارڈ الله کی عدالت میں پیش کر سکتا ہے جس سے وہ رہائی کی توقع رکھتا ہو ۔ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے اسے اپنی صفائی کے مواد کا یہیں جائزہ لے لینا چاہیئے اور ہمارے پیش کردہ مواد سے مقابلہ کر کے خود ہی دیکھ لینا چاہیئے کہ جس صفائی کے بھروسے پر وہ یہ کام کر رہا ہے کیا ایک عقلمند آدمی اس پر اعتماد کر کے کفر کی سزا کا خطرہ مول لے سکتا ہے ؟
اللہ اکبر
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر کوئی نعوذ باللہ نبی ہونے کا دعویٰ کرے تو اس سے اس کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کہنا بھی ایمان کا خطرہ ہے۔ یعنی آپ کا ایمان نہیں ختم نبوت پر۔
جزاک اللہ