Yearly Archives: 2017

کیا ہِٹلر نے خود کُشی کی تھی ؟

میں نے بچپن میں بزرگوں سے سُن رکھا تھا کہ ہِٹلر نے خود کُشی نہیں کی ۔ وہ بہت دلیر آدمی تھا ۔ والد صاحب کا کاروبار دوسری جنگِ عظیم کے دوران قاہرہ مصر میں تھا ۔ اُن کا واسطہ برطانوی فوج کے میجر اور کرنل عہدے کے افسروں سے رہتا تھا ۔ اُنہوں نے بتایا تھا ”ایک دن برطانوی میجر شام کو میرے پاس آیا ۔ وہ آتے ہی بولا ۔ کچھ سُنا تم نے ؟ کہتے ہیں جنرل رَومیل افریقہ آ رہا ہے (جرمن جنرل رَومیل یورپ کا بہت سا علاقہ فتح کر چکا تھا) ۔ والد صاحب نے اُسے کہا ”جرمن تو پڑوس میں پہنچ چکے ہیں ۔ تُم نے نہیں سُنا کہ فلاں ریلوے سٹیشن پر بم گرایا ہے جس سے ریلوے لائن اُڑ کر 2 کلو میٹر دور جا کر گری ہے“۔ والد صاحب یہ کہہ کر چائے کا بندوبست کرنے گئے ۔ جب واپس آئے تو میجر بولا’Where is your bathroom. My bloody tummy.’ جنرل رومیل کے قریب پہنچنے کی خبر سُن کر میجر کو اسہال ہو گیا تھا ۔ والد صاحب کہتے تھے ”ہِٹلر بہت دلیر اور حاضر دماغ آدمی تھا ۔ وہ اِن کے ہاتھ نہیں آیا اور اپنی خِفّت مٹانے کیلئے اِنہوں نے مشہور کر دیا کہ خود کُشی کی یعنی ہِٹلر بُزدل تھا

اتحادیوں جن کیلئے ہِٹلر ایک قہر سے کم نہ تھا کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ایڈولف ہِٹلر (Adolf Hitler) 30 اپریل 1945ء کو زیرِ زمین پناہ گاہ (Under ground Bunker) میں اپنے سر میں گولی مار کر اور اُس کی بیوی اِیوا براؤن (Eva Braun) نے زہر کی گولی (cyanide pill) کھا کر خود کُشی کر لی تھی پھر اُن کے سٹاف نے اُن کی لاشوں کو باہر لا کر نظرِ آتش کر دیا تھا اور زمین میں دبا دیا تھا

کیا بیسویں صدی کے سب سے دلیر حکمران ایڈولف ہِٹلر نے جو اتحادیوں کیلئے ایک ڈاؤنا خواب بن چکا تھا واقعی 1945ء میں خود کُشی کی تھی ؟ کبھی کسی نے دلیر آدمی کو خود کُشی کرتے سُنا ؟

ہفِنگٹَن پوسٹ ۔برطانیہ (Huffington Post, UK) میں چھپنے والی ارجنٹِینا (Argentina) کی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان عبدالباسط کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ایک معاہدے کے تحت ہِٹلر کو جنوبی امریکہ بھاگنے میں مدد دی تھی تاکہ ہِٹلر سوویٹ یونین کے ہتھے نہ چڑھ جائے ۔ اسی طرح امریکہ نے بہت سے سائنس دانوں ۔ فوجیوں اور خُفیہ اداروں کے افراد کو بھی فرار میں مدد دی تھی جنہیں بعد میں سوویٹ یونین کے خلاف استعمال کیا گیا

تاریخ دان عبدالباسط جس نے ہِٹلر کے متعلق بہت کچھ لکھا یہ دعوٰی بھی کیا کہ برلن کی چانسلری (Chancellery in Berlin) کے نیچے بنی سرُنگ (Under ground Tunnel) کے ذریعہ ہِٹلر Tempelhof Airport ایئر پورٹ پہنچا ۔ وہاں سے ہیلی کاپٹر پر ہسپانیہ (Spain) گیا جہاں سے Canary Islands اور وہاں سے U-boat (Sub-marine) میں ارجنٹینا پہنچا ۔ ارجنٹینا میں 10 سال کے قریب رہا پھر Paraguay چلا گیا جہاں 3 فروری 1971ء کو فوت ہوا ۔ اُسے city of Asuncion میں ایک زیرِ زمین پناہ گاہ (Under ground Bunker) میں دفن کیا گیا جہاں اب ایک اب ایک عالی شان ہوٹل ہے ۔ اُس کی تدفین میں 40 لوگ شریک ہوئے تھے

امریکی سی آئی اے کے تجربہ کار ایجنٹ بوب بائر (veteran CIA agent Bob Baer) کی رپورٹ بھی تاریخ دان عبدالباسط کے مؤقف کی تائید کرتی ہے

مقتول امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کردہ خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو اس کے ایک مخبر جس کا Code Name تھا Cimelody-3 نے بتایا تھا کہ جرمنی کے آمر ایڈولف ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر خود کشی نہیں کی تھی بلکہ وہ فرار ہو کر لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ نیویارک پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہٹلر نہ صرف زندہ تھے بلکہ 1950ء کی دہائی میں نازی پارٹی کے سابق ارکان کے ساتھ کولمبیا میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سٹرون کو اس کے ذریعے نے بتایا تھا کہ جرمنی کے سابق حکمران نہ صرف زندہ تھے بلکہ نازی پارٹی کے مسلح ونگ Waffen SS کے ایجنٹ سٹرون ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور کولمبیا کے شہر Tunja میں ان کے رابطے ہوتے تھے ۔ سٹرون نے مُخبر کو بتایا کہ انہوں نے سابق نازیوں کی ایک کالونی ریزادینسیاس کولونیالس میں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جو ہو بہو ایڈولف ہٹلر جیسا ہے ۔ لوگ اسے دار فیورہر کہہ کر پکارتے ہیں اور اسے نازی سیلوٹ بھی کرتے ہیں ۔ وافن ایس ایس کے سابق ایجنٹ سٹرون کے پاس اپنی وہ فوٹو بھی تھی جس میں وہ ایک شخص کے ساتھ بیٹھا ہے جو ہو بہو ہٹلر جیسا ہے ۔ سٹرون کے مطابق ایڈولف ہٹلر نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے ایڈول شریٹمیئر رکھا تھا ۔ سی آئی اے کی خفیہ یاد داشتیں (Secret Memos) دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ سی آئی اے کو شک تھا کہ ہٹلر زندہ ہے ۔ یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ سی آئی اے کو مُخبر نے بتایا کہ ہٹلر ایک Shipping Company میں ملازمت کر رہا ہے
سی آئی اے کیلئے یہ یاد داشتوں کی فائل (Memos File وینزویلا کے دارالحکومت کراکس میں تعینات بیورو چیف ڈیوڈ برکسنر نے لکھی تھی جسے سٹرون اور ہٹلر کی تصویر کے ساتھ 1955ء میں واشنگٹن ارسال کیا گیا تھا

تصحیح ۔ بیان میلاد النّبی

میں نے 30 نومبر 2017ء کو تحریر شائع کی تھی ” میلادُالنّبی کیوں منایا جاتا ہے ؟ “۔ میری غلطی کہ اِس کا ایک چھوٹا سا لیکن اہم حصہ شائع ہونے سے رہ گیا تھا جو آج پیشِ خدمت ہے

میری یاد داشت کے مطابق پاکستان بننے کے قبل سے لے کر پاکستان بننے کے کم از کم ایک دہائی بعد تک ”12 ربیع الاوّل“ کو ”بارہ وفات“ کہا جاتا تھا یعنی یومِ وصال سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم ۔ یہ یومِ پیدائش کیسے کہلانے لگا ؟ میں توجہ نہ دے سکا کیونکہ میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخل ہو چکا تھا اور وہاں نصابی کُتب پڑھنے اور کامیابی کیلئے الله سے رجوع کرنے کے سوا کسی چیز کا ہوش نہیں تھا

سیرت نگار اور مؤرخین کا تاریخ پیدائش کے بارے میں اِختلاف ہے جس کا معقول سبب بھی ہے کہ کسی کو اس مبارک نومولود کی آئیندہ شان کے بارے میں علم نہیں تھا چنانچہ انہیں عام بچوں کی طرح سمجھا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر آپ صل الله عليه وآله وسلّم کی ولادت کے بارے میں تحدید نہیں کر سکتا

جب 40 سال بعد دعوت دینے کا حُکم ہوا تو لوگ نبی صل الله عليه وآله وسلّم سے متعلقہ یادوں کو واپس لانے لگے اور آپ کی زندگی کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں پوچھنے لگے ۔

نبی صل الله عليه وآله وسلّم کی ولادت کے سال کے بارے میں متفقہ رائے ہے کہ عام الفیل کا سال تھا

آپ صل الله عليه وآله وسلّم کی پیدائش کا دن پیر (سوموار) بنتا ہے ۔ پیر کو ہی آپ صل الله عليه وآله وسلّم کو رسالت سے نوازا گیا اور پیر کو ہی آپ صل الله عليه وآله وسلّم نے وفات پائی (مُسلم 1162) ۔ یہ حوالہ بھی ملتا ہے کہ معراج بھی آپ صل الله عليه وآله وسلّم کو پیر ہی کے دِن کرائی گئی

آپ صل الله عليه وآله وسلّم کی پیدائش سے متعلق باقی مہینہ اور مہینہ کے دِن کا تعیّن ہے ۔ مہینہ کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں جن کے مطابق حضور صل الله عليه وآله وسلّم کی پیدائش ربیع الاوّل میں ہوئی

مہینہ کے دن پر اختلاف ہے ۔ کچھ مؤرخین کے مطابق 8 تاریخ تھی ۔ کچھ کے مطابق 10 ہے ۔ کچھ کے مطابق 12 ربیع الاوّل ہے ۔ کچھ مسلم محقق ماہرین فلکیات اور ریاضی دان افراد نے یہ ثابت کیا ہے کہ عام الفیل میں پیر کا دن ربیع الاول کی 9 تاریخ کو بنتا ہے جو شمسی اعتبار سے 20 اپریل 571ء کا دن ہے ۔ اس کو معاصر سیرت نگاروں نے راجح قرار دیا ہے

میلادُالنّبی کیوں منایا جاتا ہے ؟

میلادُالنّبی منانے کی وجہ رسول الله سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم سے مُحبت بتائی جاتی ہے
کل وطنِ عزیز پاکستان میں ربیع الاوّل 1439ھ کی 12 تاریخ ہے ۔ اس تاریخ کو ہمارے نبی سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی (کچھ روایات کے مطابق تاریخ ولادتِ مبارک 9 ربیع الاوّل ہے) ۔ ہمارے ملک میں ہر طرف بڑھ چڑھ کر رحمت العالمین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم سے محبت کے دعوے ہو رہے ہیں اور اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے کہیں محفلِ میلاد منعقد ہو رہی ہے اور کہیں شاندار جلوس نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں

سب کے چہرے بشاس نظر آ رہے ہیں لیکن نجانے میں کیوں اندر ہی اندر گھُلتا جا رہا ہوں
یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کیلئے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اُن کا طریقہ اپناتے ہیں ؟
ہم سوائے اپنے آپ کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟

شاید ہی کوئی ہموطن ایسا ہو جسے لیلٰی مجنوں ۔ شیریں فرہاد ۔ ہیر رانجھا ۔ سسی پُنوں ۔ سوہنی مہینوال وغیرہ کے قصے معلوم نہ ہوں ۔ مُختصر یہ کہ لیلٰی کی محبت میں قیس مجنوں [پاگل] ہو گیا ۔ شیریں سے محبت میں فرہاد نے پتھر کی چٹانوں کو کھود کر نہر بناتے ہوئے جان دے دی ۔ ہیر کی محبت میں شہزادہ یا نوابزادہ رانجھا بن گیا ۔ سَسّی کی محبت میں اُس تک پہنچنے کی کوشش میں پُنوں ریت کے طوفان میں گھِر کر ریت میں دفن ہو کر غائب ہو گیا ۔ سوہنی کی محبت میں ایک ریاست کا شہزادہ سَوہنی کی بھینسیں چرانے لگا
یہ تو اُس محبت کی داستانیں ہیں جو دیرپا نہیں ہوتی اور جن کا تعلق صرف انسان کے جسم اور اس فانی دنیا سے ہے لیکن اس میں بھی محبت کرنے والوں نے اپنے محبوب کی خوشی کو مقّدم رکھا

کیا یہ منافقت نہیں کہ رسول الله صل الله عليه وآله وسلّم کے بارے میں ہم جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمارا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا ؟

انَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورت 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 56)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ و َّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ

سورت 5 المآئدہ آیت 3 ۔ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (ترجمہ ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے)
مندرجہ بالا آیت سے واضح ہے کہ الله سبحانه و تعالٰی نے رسول الله سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم پر دین مکمل کر دیا چنانچہ اُن کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں رہی یعنی سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم آخری نبی ہیں ۔ جو شخص اس پر ایمان نہ رکھے وہ مُسلمان نہیں ہو سکتا

تہوار کب اور کیسے شروع ہوا ؟
میلادالنبی کسی بھی صورت میں منانے کی مثال سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلم کی وفات کے بعد 4 صدیوں تک نہیں ملتی ۔ پانچوَیں اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید 17 مارچ 763ء کو ایران میں تہران کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء کو وفات تک مسند خلافت پر رہے ۔ ان کے دور میں خطاطی اور فنِ تعمیر کے ساتھ ساتھ مصوری اور بُت تراشی کو بھی فروغ حاصل ہوا ۔
آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ان کی والدہ الخيزران بنت عطاء نے اُس مکان کو مسجد میں تبدیل کروایا جہاں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی تھی ۔ اس کے بعد میلادالنبی کو تہوار کے طور پر شیعہ حکمرانوں نے منانا شروع کیا لیکن عوام اس میں شامل نہ تھے ۔

میلادالنبی کو سرکاری تہوار کے طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں منایا گیا جہاں اُس دور میں شیعہ کے اسماعیلی فرقہ کے الفاطميون [جنوری 909ء تا 1171ء] حکمران تھے ۔ شروع شروع میں اس دن سرکاری اہلکاروں کو تحائف دیئے جاتے ۔ جانوروں کی قربانی اور ضیافتیں کی جاتیں ۔ شعر پڑھے جاتے اور مشعل بردار جلوس نکالا جاتا ۔ یہ سب کچھ دن کے وقت ہوتا تھا

اس کی تقلید اہلِ سُنّت نے پہلی بار بارہویں صدی عیسوی میں شام میں کی جب وہاں نورالدین حاکم تھا ۔

الأيوبيون جو بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں حکمران رہے نے یہ تقریبات سب جگہ بند کرا دیں لیکن کچھ لوگ اندرونِ خانہ یہ تہوار مناتے رہے ۔

سلطان صلاح الدین کی وفات کے بعد اُس کے برادرِ نسبتی مظفرالدین ابن زین الدین نے تیرہویں صدی میں عراق میں پھر اسے سرکاری تہوار بنا دیا ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ پھیلتی رہی اور سلطنتِ عثمانیہ [1299ء تا 1923ء] کے دور میں ستارہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا کے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ۔ 1910ء میں سلطنت عثمانیہ نے اسے قومی تہوار قرار دے دیا

آج جو مسلمان بھائی اجتہاد کی باتیں کرتے ہیں اُنہیں کم از کم اتنا تو کرنا چاہیئے تاریخ کا مطالعہ کر کے مسلمانوں تک اصل دین اسلام پہنچائیں ۔ تاکہ قوم میلے ٹھیلوں کی بجائے دین اسلام پر درست طریقہ سے عمل کرے
وما علینا الا البلاغ

تمام ہموطن بہنوں اور بھائیوں کی خدمت میں

ملک میں تبدیلی حکمرانوں کو تبدیل کرنے سے نہیں آتی بلکہ خود کو تبدیل کرنے سے آتی ہے ۔ اگر ہم خود اچھے کام کرنے لگیں اور بُرے کام باکل چھوڑ دیں پھر حکمران بھی اچھے ہی چُنے جائیں گے اور اپنا مُلک تیزی سے ترقی کرے گا اور جنت نظیر ہو جائے گا جس کا فائدہ ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو ہو گا

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اچھی زندگی گزاریں تو اِس کیلئے ہمیں آج ہی سے محنت کر کے اچھائی اختیار کرنا ہو گی ۔ جو تھوڑی سی تکلیف آج ہم برداشت کریں گے اس کا ہمارے بچوں کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا اور ہمارا اپنا بڑھاپا بھی اچھا گزرے گا

اِس کی ابتداء کیلئے آپ سب کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میری درخواست ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ اسے غور سے پڑھ کر اس سلسلہ میں پوری کوشش کی جائے گی

1 ۔ سڑک پر ۔ گلی یا عمارت میں ڈسٹ بن (Dust Bin) کے سوا کسی جگہ چھلکا ۔ کاغذ یا سگرٹ وغیرہ نہ پھنیکیئے (جلتا سگریٹ کبھی نہ پھیکیئے)
2 ۔ سڑک ۔ گلی ۔ دیوار یا فرش پر نہ تھُوکیئے
3 ۔ کرنسی نوٹ یا دیوار پر کچھ نہ لکھیئے
4 ۔ باہر اور اپنے گھر میں بھی پانی اور بجلی کی جتنی بچت ہو سکے کیجئے
5 ۔ ٹریفک رولز کو سمجھئے ۔ ٹریفک رولز پر عمل کیجئے اور کبھی خلاف ورزی نہ کیجئے
6 ۔ ایمبولنس اور فائر بریگیڈ کی گاڑی کو فوری طور پر راستہ دیجئے
7 ۔ والدین ۔ دادا ۔ دادی ۔ نانا نانی کی خدمت کیجئے اور اُن کی کسی بات کا بُرا نہ منایئے
8 ۔ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں اورسب خواتین کا احترام کیجئے
9 ۔ خواہ کوئی آپ کے ساتھ زیادتی کرے آپ کسی کو نہ گالی دیجئے نہ تضحیک کیجئے
10 ۔ ہر سال کم از کم ایک درخت لگایئے چاہے اپنی زمین پر ہی لگائیں اور پہلے سے لگے درخت نہ کاٹیئے

اِس پر خود عمل کیجئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی عمل کی ترغیب دیجئے مگر احترام اور پیار سے

جمعہ ۔ کالا یا سبز یا کچھ اور ؟

محترمہ سیما آفتاب صاحبہ نے ایک تحریر ” گرین فرائی ڈے“ لکھی ۔ وہاں تبصرہ کرنا چاہتا تھا لیکن خدشہ تھا کہ تبصرہ متذکرہ تحریر سے طویل ہو جائے گا چنانچہ اسے یہاں لکھنے کا قصد کیا

ہمارے مُلک میں جو 70 فیصد تک رعائت دی جاتی ہے صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے ۔ یہ میرا اسلام آباد کا تجربہ ہے کہ زور ” تک“ پر ہوتا ہے یعنی ”70 فیصد تک“۔ اسلئے 5 فیصد بھی ہو سکتی اور صفر بھی ۔ اور جہاں یہ تجربہ ہوا اُن کا بہت بڑا نام ہے ۔ اسلام آباد میں کچھ دُکانیں ایسی ہیں جن پر موسم کے لحاظ سے یعنی گرمیوں یا سردیوں کا آدھا دورانیہ گزرنے کے بعد وہ کم قیمت فروخت شروع کرتے ہیں تاکہ متعلقہ موسم والے کپڑے نکل جائیں ۔ اس سے میں بھی کبھی کبھی یعنی جب ضرورت ہو فائدہ اُٹھا تا ہوں

یہ ” اشرافیہ “ کون لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر مُراد دولتمند ہے تو وہ لوگ اس طرح کی فروخت میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ اس طرح کی فروخت سے میرے جیسے لوگ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں چاہے بیچنے والے نے پہلے قیمت زیادہ لکھ کر اُسے کاٹ کر کم قیمت لکھی ہو

رہا جمعہ تو کالا نیلا پیلا سبز سفید کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جمعہ صرف جمعہ ہے ۔ ہم اپنے عمل سے اِسے اچھا بناتے ہیں ۔ خرابی غیرمُسلموں کی اندھی نقّالی کی ہماری عادت میں ہے ۔ ہماری حالت اُس کوّے کی سی ہے جس نےہم مَور کی دُم کے کچھ پَنکھ اپنی دُم میں لگا لئے اور سمجھ بیٹھا کہ مَور بن گیا ہے

ہمارے پاس اپنے تہوار ہیں جیسے عیدالفطر ۔ عیدالاضحٰے ۔ میلادُالنّبی ۔ اِن کے بعد کی بجائے اِن سے ہفتہ 10 دِن قبل سستی فروخت کی جا سکتی ہے تاکہ غریب لوگ بھی عید پر نئے کپڑے پہن سکیں ۔ روزی کمانے کے ساتھ ثواب بھی کمائیں ۔ ہم لوگ 1976ء سے 1983ء تک لبیا کے شہر طرابلس میں رہے ۔ وہاں سب سے بڑی کم قیمت فروخت رمضان المبارک میں ہوتی تھی اور دوسری ربع الاول کے پہلے 10 دنوں میں ۔ زیادہ تر عرب ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے

ہم لوگ ویسے تو سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں ”میں مُسلمان ہوں“ لیکن غیر مُسلموں کے تہوار جیسے کرسمِس ۔ نیو ایئر نائٹ ۔ ایسٹر ۔ بلیک اور گُڈ فرائیڈے مناتے ہیں جبکہ عیدین سے پہلے قیمتیں زیادہ کر دیتے ہیں

چائے کی پیالی ۔ ایک منفرد واقعہ

پندرہ فوجی ایک میجر کی کمان میں ہمالیہ ک برف پوش چوٹی پر بنی پوسٹ پر ڈیوٹی کیلئے برف سے لدے دشوار گزار پہاڑ پر چڑھ رہے تھے ۔ چوکی پر اُنہوں نے 3 ماہ ڈیوٹی دینا تھی ۔ مزید برف باری وقفے وقفے سے جاری تھی ۔ نامساعد حالات کے ساتھ مکّار دُشمن کی چھیڑ خانی ۔ خاصی مُشکل ڈیوٹی تھی

متواتر 2 گھنٹوں سے وہ چڑھتے جا رہے تھے ۔ میجر نے دِل ہی دِل میں سوچا ” ایسے میں اگر گرم چائے کی ایک پیالی مل جائے تو کیا بات ہے“۔ پھر میجر خود ہی اپنے آپ پر ہنس دیا کہ کیسی بیوقوفانہ خواہش ہے ۔ وہ چڑھتے گئے ۔ مزید ایک گھنٹہ گزر گیا ۔ رات کا اندھیرا چھا چکا تھا کہ ایک شکستہ حال کمرہ نظر پڑا جو چائے کی دکان لگتا تھا ۔ قریب گئے تو دروازے پر تالا پڑا تھا ۔ میجر نے کہا ”جوانو ۔ قسمت نے یاوری نہیں کی ۔ چائے نہیں ملے گی ۔ لیکن آپ سب تھک گئے ہوں گے ۔ یہاں کچھ دیر آرام کر لیتے ہیں“۔

ایک سپاہی بولا ” سر ۔ چائے کی دکان ہے ۔ ہم خود چائے بنا لیں گے ۔ بس تالا توڑنا پڑے گا“۔
میجر مخمصے میں پڑ گیا ۔ تجویز غیر اخلاقی تھی ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ چائے کی ایک پیالی تھکاوٹ سے چُور سپاہیوں میں نئی رُوح پھُونک دے گی ۔ بادلِ نخواستہ اُس نے اجازت دے دی ۔ سپاہیوں نے تالا توڑا تو اندر چائے بنانے کا پورا سامان موجود تھا اور بسکٹ بھی تھے ۔ اُنہوں نے چائے بنائی ۔ سب نے دو دو بسکٹ کے ساتھ گرم گرم چائے پی اور پھر چلنے کیلئے تیار ہو گئے

میجر نے سوچا کہ اُنہوں نے بغیر مالک کی اجازت کے چائے پی ۔ بسکٹ کھائے اور تالا بھی توڑا ۔ وہ مُلک و قوم کے محافظ ہیں ۔ کوئی چور ڈاکو تو نہیں ۔ چائے ۔ بسکٹ اور تالے کے علاوہ بھی کچھ معاوضہ دینا چاہیئے ۔ میجر نے اپنے بٹوے سے 1000 روپے کا نوٹ نکالا ۔ کاؤنٹر پر رکھا اور اُس پر چینی دانی رکھ دی تاکہ دکان والے کو فوراً نظر آ جائے ۔ اس طرح میجر کے ذہن پر بوجھ ہلکا ہو گیا ۔ سپاہیوں نے دکان کا دروازہ بند کیا اور چل پڑے

چوکی پر پہنچ کر وہاں موجود دستے کو فار غ کر کے اُن کا کام سنبھال لیا ۔ گاہے بگاہے دُشمن کے فوجی اور تربیت یافتہ دہشتگرد حملے کرتے رہے ۔ 3 ماہ گزر گئے لیکن خوش قسمتی سے اُن کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔ ڈیوٹی نئے دستے کے حوالے کر کے واپسی کا سفر اختیار کیا ۔ راستے میں اُسی چائے کی دکان پر رُکے ۔ دن کا وقت تھا ۔ دکان کھُلی تھی اور اُس کا مالک موجود تھا جو بوڑھا تھا ۔ وہ اکٹھے 16 مہمانوں کو دیکھ کر خوش ہوا اور بخوشی چائے پیش کی ۔ میجر نے اُسے اپنے تجربات کا پوچھا ۔ وہ اپنے قصے سنانے لگا ۔ ہر قصے میں وہ الله کی موجودگی کا بار بار ذکر کرتا ۔ ایک سپاہی نے کہا ”بابا ۔ اگر الله ہر جگہ موجود ہے تو آپ کا یہ حال کیوں ہے ؟

بوڑھا دکاندار نے بڑے جوش سے کہا ” ایسے مت کہیئے صاحب ۔ الله ہر جگہ موجود ہے ۔ میرے پاس اس کا تازہ ثبوت ہے ۔ 3 ماہ قبل مجھے بہت مُشکلات کا سامنا تھا ۔ دہشتگرد میرے اکلوتے بیٹے سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے میرے بیٹے کو بہت زد و کوب کیا ۔ میں نے دکان بند کی اور بیٹے کو شہر میں ہسپتال لے گیا ۔ کچھ دوائیاں خریدنا تھیں اور میرے پاس رقم نہ تھی ۔ دہشتگردوں کے ڈر سے کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہ تھا ۔ میں نے اپنے الله سے مدد کی استدعا کی ۔ میں دکان پر آیا تو تالا ٹوٹا دیکھ کر دِل دھک سے رہ گیا کہ جو میری پونجی تھی وہ بھی کوئی تالا توڑ کر لے گیا ۔ اچانک میری نظر کاؤنٹر پڑی ۔ الله نے میری دکان میں چینی دانی کے نیچے 1000 روپے رکھ دیئے تھے ۔ وہ رقم میرے لئے سب کچھ تھی ۔ صاحب ۔ الله ہر جگہ ہے اور سب کچھ دیکھتا اور سُنتا ہے“۔

پندرہ کے پندرہ سپاہیوں کی کی نظریں اپنے کمانڈر (میجر) کی طرف اُٹھیں ۔ میجر کی آنکھیں اُنہیں کہہ رہی تھیں ”خبر دار ۔ خاموش ۔ ایک لفظ نہیں بولنا“۔

میجر اُٹھا ۔ بِل ادا کیا ۔ بوڑھے دکاندار سے بغل گیر ہوا اور بولا ”ہاں ۔ بابا جی ۔ میں جانتا ہوں ۔ الله ہر جگہ موجود ہے ۔ اور ہاں ۔ چائے بہت عمدہ تھی”۔

چلتے ہوئے سپاہیوں نے دیکھا کہ اُن کا کمانڈر کہ کبھی بُرے سے بُرے وقت میں جس کی آنکھیں نَم نہیں ہوئی تھیں ۔ اُن آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے

مسجد نہیں جاؤں گا

بیٹے نے باپ سے کہا ” میں آج سے مسجد نہیں جاؤں گا “
باپ ” کیوں ؟ کیا ہوا ؟“
بیٹا ” ابا جی ۔ وہاں میں دیکھتا ہوں کہ کوئی موبائل فون پر لگا ہے ۔ کوئی گپ لگا رہا ہے اور کوئی کچھ اور ۔ سب منافق ہیں“۔
باپ نے کہا ” ٹھیک ہے لیکن حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے تم میری خاطر ایک کام کرو گے ؟“
بیٹا بولا ”وہ کیا ؟“
باپ نے کہا ” ایک گلاس میں پانی بھر کر ہاتھ میں پکڑ لو اور مسجد کے گرد 2 چکر لگاؤ لیکن خیال رہے کہ گلاس میں سے پانی بالکل نہ گرے“۔
بیٹا مان گیا اور گلاس لے کر چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد لڑکے نے واپس آ کر بتایا کہ ہو گیا
باپ نے کہا ” اب میرے 3 سوالوں کا جواب دو“۔
”1 ۔ کیا تم نے کسی کو اپنے موبائل فون پر کچھ کرتے دیکھا ؟“
”2 ۔ تم نے کسی کو گپ لگاتے سُنا ؟“
”3 ۔ تُم نے کسی کو کچھ غلط کرتے دیکھا ؟“
بیٹا بولا ” ابا جی ۔ نہیں میں نے کسی کو نہ دیکھا نہ سُنا ۔ میری پوری توجہ تو گلاس کی طرف تھی کہ کہیں پانی نہ گرے“۔

باپ نے پھر کہا ” بیٹا ۔ اِسی طرح جب تُم مسجد میں جاتے ہو تو تمہاری پوری توجہ پیدا کرنے والے کی طرف ہونا چاہیئے جس کیلئے تُم مسجد جاتے ہو نہ کہ اُس کی مخلوق کی طرف پھر ہی تمہیں الله کے گھر جانے کا فائدہ ہو گا“۔