ہم جب غُصے میں ہوں یا ناراض ہوں تو عام طور پر ہماری توجہ بدلے کی طرف ہوتی ہے اور مزا چکھانے کا رجحان بن رہا ہوتا ہے
ہم اپنے آپ کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ز یادتی ہوئی ہے اسلئے ہم کوسنے اور نقصان پہنچانے میں بر حق ہیں
جبکہ اللہ کا فرمان ہے
سورت 16 النحل آيت 126 ۔ اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے
سورت 42 الشورٰی آيت 40 ۔ اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔ (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا ۔
Yearly Archives: 2017
اتوار 18 جون 2017 کی یاد میں
وہ آئے معمول کو چھوڑ کر
پچھلی سب روائتیں توڑ کر
دماغ کی اُنہوں نے مان لی
پھِر دِل میں اپنے ٹھان لی
آج کر کے کچھ دِکھانا ہے
یُونہی لَوٹ کر نہیں جانا ہے
سینہ تان کے آئے میدان میں
اِس مبارک ماہِ رمضان میں
روزے تھے گھنٹے بیس کے
رکھ دیا مقابل کو پِیس کے
سب کے دِل میں وہ سما گئے
عید سے پہلے عید بنا گئے
تمام ہموطن بزرگوں بہنوں بھائیوں اور بچوں کو کرکٹ کی فتح مبارک ہو ۔ جس طرح ساری قوم یعنی ننھے بچوں سے لے کر مجھ سے بھی بڑے ہموطنوں تک کے دل اتوار کو ایک ہی رُخ پر تھے اور اُن کے دِل سے ایک ہی دعا نکل رہی تھی ”یا اللہ ۔ فتح“۔ میری دعا ہے کہ باری تعالٰی میرے سب ہموطنوں کے دِلوں میں قوم و مُلک کی ہر بہتری کیلئے یکسُوئی اور محبت ڈال دے ۔ اور گروہوں اور ذاتی پسند ناپسند کو چھوڑ کر ہم سب مِل کر یگانگت سے بھرپور ایک پاکستانی قوم بن جائیں ۔ آمین ۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت ہماری طرف مَیلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گی
تاخیر کی معذرت
میں نے علیل ہونے کے باوجود سارا میچ دیکھا تھا لیکن اُس کے بعد میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ۔ بخار بھی تیز ہو گیا تھا اسلئے خواہش کے باوجود بلاگ پر اظہارِ خیال نہ کر سکا ۔ آج بیٹھنے کے قابل ہوا ہوں تو سب سے پہلے یہی کام کیا ہے
ماں کا حق
سورت 46 الاحقاف ۔ آیت 15
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا ”اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں“۔
انسان کے 30 پٹھوں کی ورزش
ہمارے ہاتھ کے ایک مربع اِنچ میں 9 فٹ خون کی نالیاں ۔ اعصاب کے 9000 سِرے ۔ 600 درد محسوس کرنے والے ۔ 36 تپش محسوس کرنے والے اور 75 دباؤ محسوس کرنے والے ہیں
ہمارے جسم میں 600 سے زائد پَٹھے ہیں
جب ہم مُسکراتے ہیں تو کم از کم 30 پٹھوں کی ورزش ہو جاتی ہے
پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟
کیا پوچھیں گے ؟
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ نہیں پوچھیں گے کہ
” کتنا بچا کر جمع کیا تھا ؟ “
” کیا خواب دیکھے تھے ؟ “
” تمہارے منصوبے کیا تھے ؟ “
” تم کیا کہتے رہے تھے ؟“
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھیں گے کہ
” تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟ “
” کیا تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟ “
” کیا لوگ تمہاری زبان سے محفوظ تھے ؟ “
” کیا پڑوسی تم سے خوش تھے ؟“
آدمی کا کردار اور اللہ کی نعمت
سورت 17 ۔ بنی اسراءیل (یا الاِسرآء) ۔ آیت 36 ۔ اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پُرس ہوگی
ہر صحتمند آدمی کا جسم روزانہ خُون کے ایک کھرب (100000000000) سُرخ خُلیئے پیدا کرتا ہے جب ہم کسی چیز کو چھُوتے ہیں تو 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پیغام دماغ کو جاتا ہے
پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟
کیا یاد کرا دیا
یکم جون 2017ء کو جوائنٹ اِنوَسٹی گیشن ٹیم کو اپنا بیان قلمبند کرانے کے بعد حسین نواز نے میڈیا کے سامنے ایک ایسی بات کہہ دی جو اُس کی پاکستان کی تاریخ سے واقفیت کا مظہر تھی ۔ حسین نواز نے کہا تھا ”حسین شہید سہروردی صاحب کے بعد یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہوتا آ رہا ہے“
میں نے 24 نومبر 2011ء کو ”بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال“عنوان کے تحت ایک تحریر لکھی تھی اُس میں سے ایک مختصر اقتباس نقل کر رہا ہوں
آپ کا پہلا سوال
جہاں تک ميرا عِلم اور ياد داشت کام کرتی ہے پاکستان بننے کے فوری بعد مشرقی پاکستان ميں کسی مطالبے نے جنم نہيں ليا تھا ۔ اگر ايسا ہوتا تو حسين شہيد سہروردی صاحب جو خالص بنگالی تھے پاکستان کا پہلا آئين منظور ہونے کے بعد ستمبر 1956ء ميں پاکستان کے وزيرِ اعظم نہ بنتے
خيال رہے کہ حسين شہيد سہروردی صاحب اُس عوامی ليگ کے صدر تھے جس ميں شيخ مجيب الرحمٰن بھی تھا
بنگاليوں کا دُشمن دراصل بنگالی بيوروکريٹ سکندر مرزا تھا جو غلام محمد کا منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے بیوروکریٹ سے حکمران بن بیٹھا تھا
حسين شہيد سہروردی صاحب نے مشرقی پاکستان (جو کراچی کے سيٹھوں کے زيرِ اثر تھا) کو اس کا مالی حق دينے کی کوشش کی جسے روکنے کے لئے سکندر مرزا (جو اُس وقت صدر تھا) نے حسين شہيد سہروردی صاحب پر اِتنا زیادہ دباؤ ڈالا کہ اس ڈر سے کہ اُنہيں برخاست ہی نہ کر ديا جائے حسين شہيد سہروردی صاحب اکتوبر 1957ء ميں مستعفی ہو گئے تھے
يہ تھا وہ وقت جب مشرقی پاکستان ميں نفرت کی بنياد رکھی گئی
اس سے قبل محمد علی بوگرہ صاحب جو بنگالی تھے 1953ء ميں وزيرِ اعظم بنے تھے اور انہيں بھی سکندر مرزا نے 1955ء ميں برخواست کيا تھا
محمد علی بوگرہ صاحب سے قبل 1953ء ميں خواجہ ناظم الدين صاحب کی کابينہ کو اور 1954ء ميں پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی کو غلام محمد نے برخواست کر کے پاکستان کی تباہی کی بنياد رکھی تھی
مشرقی پاکستان ميں بنگالی بھائيوں کے دُشمن وہی تھے جو مغربی پاکستان ميں پنجابيوں ۔ سندھيوں ۔ پٹھانوں اور بلوچوں کے دشمن رہے ہيں يعنی بيوروکريٹ خواہ وہ سادہ لباس ميں ہوں يا وردی ميں