اپریل 2016ء میں کراچی کے ایک صاحب نے سوال پوچھا ”کیا یہ شعر بولنا صحیح ہے ؟؟“
کی محمد ﷺ سے وفا تُو نے تَو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ۔ لوح و قلم تیرے ہیں
اُس زمانہ سے لے کر جب میں گیارہویں جماعت میں تھا (1955ء) اُس زمانہ تک جب حکومتِ وقت نے علامہ اقبال کو ریڈیو ۔ ٹی وی اور سکول و کالج کی نصابی کُتب سے نکال کر اُن کی جگہ فیض احمد فیض کو قومی شاعر بنا دیا تھا (1974ء) یہ سوال کئی بار سُننے میں آیا اور اِس پر تکرار ہوتے بھی دیکھی
اِس سوال کا اٹَک کے ایک صاحب جو مولوی سمجھے جاتے ہیں نے خوبصورت جواب دیا ۔ سو خیال آیا کہ اِسے قارئین کی نظر کیا جائے
جواب ۔ محترم بھائی ۔ شعر و شاعری کو سمجھنے کیلئے اس سے تعلق ضروری ہے اور یہ فقیر شعر و سخن سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ۔ بہرحال اپنی بساط کے مطابق عرض ہے ۔ آپ نے جس شعر کی تشریح پوچھی ہے ۔ وہ ڈاکٹر اقبال کی مشہور نظم “جواب شکوہ “کا ہے ۔ ”شکوہ ۔ جواب شکوہ“ علامہ اقبال کی دو طویل نظمیں ہیں جو ”بانگ درا“ یعنی ”گھنٹیوں کی صدا“ کے اوراق کی زینت ہیں ۔ ”شکوہ“ اپریل 1911ء میں لکھی گئی ۔ ریواز ہوسٹل اسلامیہ کالج کے صحن میں ہونے والے انجمن حمایت اسلام لاہور کے اجلاس میں اقبال نے سنائی ۔ ”جواب شکوہ“ 1913ء میں اقبال نے لکھی ۔ یہ نظم موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام میں بعد نماز مغرب سنائی گئی ۔ اس جلسے کا اہتمام مولانا ظفر علی خان نے کیا ۔ جواب شکوہ اسی جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئی اور اس کی پوری آمدن ”بلقان فنڈ“ میں دے دی گئی ۔ شکوہ اور جواب شکوہ لکھنے کی اقبال کو ضرورت کیوں ہوئی ؟ اس کے بارے میں مختلف شارح اپنی اپنی آراء رکھتے ہیں لیکن جس ایک پہلو پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے اقبال 1905ء سے 1908ء تک یورپ میں رہے ۔ میونج یونیورسٹی (جرمنی) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور قانون کا امتحان برطانیہ سے پاس کیا
یورپ میں قیام کے دوران وہاں کی سائنسی ۔ مادی ۔ سیاسی ۔ اقتصادی ۔ معاشرتی ترقی اور تہذیبی اقدار کو اقبال نے بہت قریب سے دیکھا ۔ اہل یورپ کی علمی لگن ۔ عملی کوشش ۔ سائنسی ترقی ۔ جذبہءِ عمل اور حُب الوطنی سے متاثر ہوئے ۔ جب واپس ہندوستان آئے تو اہلِ یورپ کے برعکس مسلمانوں میں کاہلی ۔ جمود ۔ بے عملی ۔ غلامانہ ذہنیت ۔ اقتصادی پسماندگی اور عملی ذوق و شوق کا فُقدان دیکھ کر آزردہ خاطر ہوئے مسلمانوں کی اسلام سے محض زبانی عقیدت ۔ خدا کی محبوب قوم ہونے کا عجیب احساس ۔ اسلام کا شَیدا ہونے کا دکھاوے کا اعتقاد ۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے دُوری اور اسوہءِ رسول سے وابستگی کے خیالی دعوے ۔ اقبال کی پریشیانی کا باعث بن گئے ۔ ان ساری باتوں کے باوجود مسلمان ہر وقت دین و دنیاکی برکات چھِن جانے کا خدا سے شکوہ بھی کرتے تھے ۔ یہی نظم ”شکوہ“ کا بنیادی تصور ہے
”شکوہ“ جب اقبال نے لکھی تب صرف ہندوستان کے مسلمان ہی زبُوں حالی کا شکار نہیں تھے ۔ ایران ۔ ترکی ۔ مصر اور افریقہ کے مسلمانوں کی حالت بھی ایسی ہی تھی ۔ طرابلس اور بلقان کی جنگوں نے مسلمانوں کے احساس زوال کو مزید شدید کردیا تھا ۔ جس نے اقبال کو شکوہ ۔ جواب شکوہ جیسی انقلابی نظمیں لکھنے کی تحریک دی ۔ علامہ اقبال نباضِ ملت اور اپنے دور کے مفکر ہیں ۔ انہوں نے موجودہ عہد کے مسلمانوں کے زوال کے اسباب اور زمانہ قدیم کے مسلمانوں کے عرُوج کی وجوہات کو دونوں نظموں کا مرکزی خیال بنایا تاکہ مسلمان اپنے شان دار ماضی سے زوال پذیر حال کو دیکھیں اور روشن مستقبل کا سراغ لگاسکیں
مسلمانوں کے طرز عمل سے نالاں اقبال اسلام کے عظیم ماضی کوحسرت سے دیکھتے، حال کا جائزہ لیتے تو بے بسی سے سپر ڈال دیتے۔ مگر ان کی مایوسی اور ناامیدی انہیں کشاں کشاں تاریکی سے روشنی کی طرف لے آئی۔ مسلمان بلقان سے نکالے جاچکے تھے۔ ایران موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ طرابلس کے میدان مجاہدین کے خون سے لالہ زار تھے۔ اس دور میں اقبال نے جو نظمیں لکھیں ان کے اثر سے ہندی مسلمانوں میں جوش پیدا ہوا۔ جس پر انہوں نے شکوہ، جواب شکوہ لکھیں۔
یاد رہے انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں اقبال نے جب شکوہ پڑھی تو لوگ پھولوں کی جھولیاں بھر کر لاے اور علامہ پر گل پاشی کی اقبال کے والد گرامی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ سیرت اقبال میں سر عبدالقادر نے لکھا ہے اقبال کے والد بیٹے کی کامیابی پر نازاں اور تاثر کلام سے آبدیدہ تھے۔
شکوہ کے آغاز میں اقبال نے مسلمانوں کی جانب سے اللہ سے کلام کیا ہے
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے
ان شعار کا جواب، جواب شکوہ کے آخری اشعار میں دے کر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو لاجواب کردیا گیا ہے
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
اے مسلم : اگر تو صاحب ایمان ہوجائے تو تیری عقل تیری ڈھال بن جائے ،جو تجھے ہر غلط اقدام سے روک لے
اور عشق (یعنی تیرا ایمان ) تیرا اسلحہ ہے ، (اس لئے اپنے ایمان کو زندہ کر )
تو درویش ( یعنی بندہء دنیا تو نہیں ،لیکن دنیا کا خلیفہ ہے ) اور تو
کسی ایک خطہ پر خلافت کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا پر خلافت و حکومت کیلئے وجود میں آیا ہے ،
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
اے مسلم : تو اس جہاں میں اگر اللہ کی کبریائی ،اور حاکمیت کیلئے کوشاں ہو جائے تو دنیا سے باقی تمام ازم اور نظام پاش پاش ہوجائیں
اور اگر تو مسلم حقیقی بن جائے تو تیری ہر تدبیر تیرے لئے کار آمد بن جائے،
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اس آخری شعر کا آسان سا مفہوم یہ کہ اللہ فرماتے ہیں :
اے مسلم : تو اگر میرے نبی مکرم ﷺ کا وفادار بن جائے ،تو یہ دنیا جس پر کبھی تیری حکومت و شوکت تھی
اور جو اب چھن چکی ،نہ صرف وہ پھر تجھے واپس مل سکتی ہے ، بلکہ ہم ہر فیصلہ میں تیری ضرورت و عزت کا خیال رکھیں گے
جزاک اللہ