محترمہ سیما آفتاب صاحبہ نے ایک تحریر ” گرین فرائی ڈے“ لکھی ۔ وہاں تبصرہ کرنا چاہتا تھا لیکن خدشہ تھا کہ تبصرہ متذکرہ تحریر سے طویل ہو جائے گا چنانچہ اسے یہاں لکھنے کا قصد کیا
ہمارے مُلک میں جو 70 فیصد تک رعائت دی جاتی ہے صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے ۔ یہ میرا اسلام آباد کا تجربہ ہے کہ زور ” تک“ پر ہوتا ہے یعنی ”70 فیصد تک“۔ اسلئے 5 فیصد بھی ہو سکتی اور صفر بھی ۔ اور جہاں یہ تجربہ ہوا اُن کا بہت بڑا نام ہے ۔ اسلام آباد میں کچھ دُکانیں ایسی ہیں جن پر موسم کے لحاظ سے یعنی گرمیوں یا سردیوں کا آدھا دورانیہ گزرنے کے بعد وہ کم قیمت فروخت شروع کرتے ہیں تاکہ متعلقہ موسم والے کپڑے نکل جائیں ۔ اس سے میں بھی کبھی کبھی یعنی جب ضرورت ہو فائدہ اُٹھا تا ہوں
یہ ” اشرافیہ “ کون لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر مُراد دولتمند ہے تو وہ لوگ اس طرح کی فروخت میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ اس طرح کی فروخت سے میرے جیسے لوگ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں چاہے بیچنے والے نے پہلے قیمت زیادہ لکھ کر اُسے کاٹ کر کم قیمت لکھی ہو
رہا جمعہ تو کالا نیلا پیلا سبز سفید کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جمعہ صرف جمعہ ہے ۔ ہم اپنے عمل سے اِسے اچھا بناتے ہیں ۔ خرابی غیرمُسلموں کی اندھی نقّالی کی ہماری عادت میں ہے ۔ ہماری حالت اُس کوّے کی سی ہے جس نےہم مَور کی دُم کے کچھ پَنکھ اپنی دُم میں لگا لئے اور سمجھ بیٹھا کہ مَور بن گیا ہے
ہمارے پاس اپنے تہوار ہیں جیسے عیدالفطر ۔ عیدالاضحٰے ۔ میلادُالنّبی ۔ اِن کے بعد کی بجائے اِن سے ہفتہ 10 دِن قبل سستی فروخت کی جا سکتی ہے تاکہ غریب لوگ بھی عید پر نئے کپڑے پہن سکیں ۔ روزی کمانے کے ساتھ ثواب بھی کمائیں ۔ ہم لوگ 1976ء سے 1983ء تک لبیا کے شہر طرابلس میں رہے ۔ وہاں سب سے بڑی کم قیمت فروخت رمضان المبارک میں ہوتی تھی اور دوسری ربع الاول کے پہلے 10 دنوں میں ۔ زیادہ تر عرب ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے
ہم لوگ ویسے تو سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں ”میں مُسلمان ہوں“ لیکن غیر مُسلموں کے تہوار جیسے کرسمِس ۔ نیو ایئر نائٹ ۔ ایسٹر ۔ بلیک اور گُڈ فرائیڈے مناتے ہیں جبکہ عیدین سے پہلے قیمتیں زیادہ کر دیتے ہیں
Pingback: جمعہ ۔ کالا یا سبز یا کچھ اور ؟ | ღ کچھ دل سے ღ
جزاک اللہ ۔۔۔ آپ کی ایک ایک بات سے مکمل اتفاق ہے ۔۔ ہم لوگ “نقل” کرنے کے لیے “عقل” کا استعمال نہیں کرتے بس اس لیے اس کوے کی طرح ہوتے جا رہے ہیں جو ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اپنی چال بھول گیا ہے۔