ستمبر 1947ء کے آخری ہفتہ میں ہماری حفاظت کے خیال سے ہمارے بزرگوں نے مُجھے اور میری 2 بہنوں کو ایک کرنل صاحب کے بیوی بچوں کے ساتھ جموں شہر سے چھاؤنی بھیج دیا تھا ۔ شام اور رات کے وقت ”جے ہِند“ اور سَت سِری اکال“ کے نعروں کی آوازیں آتیں ۔ معلوم ہوا کی بھارت سے آنے والے ہِندوؤں اور سِکھوں کے مسلحہ دستے چھاؤنی میں سے گذرتے ہیں
پھر کوئی شہر سے آیا تو خبر ملی کہ جموں شہر کے مضافاتی علاقوں میں جہاں مسلمان بھاری تعداد میں نہیں ہیں وہاں بھارت سے آئے ہوئے ہندو اور سکھ مسلحہ بلوائی حملے کر رہے ہیں اور کئی دیہات میں کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی گئی ہے
6 نومبر 1947ء کو خبر ملی کہ 3 اور 4 نومبر کو جموں کے 2 محلوں (ہمارا محلہ اور محلہ پٹھاناں) جہاں سب مسلمان تھے لوگوں کو زبردستی گھروں سے نکال دیا گیا کہ پاکستان جاؤ اور اس بہانے سے اُنہیں شہر سے باہر لے جا کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا ۔ یہ خبر سُن کر جو ہمارا حال ہوا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ میں نے دو شعر پڑھے یا سُنے ہوئے تھے جن میں اپنی طرف سے ملا کر میں تنہا بیٹھ کر مدھم آواز میں گاتا اور آنسو بہایا کرتا تھا
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا
مُشکل میں ہم نے تیری رحمت کو ہے پکارا
حاجت روا بھی تُو ہے مُشکل کُشا بھی تُو ہے
مالک تیرے کرم پر ہے کامل ایمان ہمارا
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا
تو چاہے تو مِلا دے بِچھڑے ہوئے دِلوں کو
دُنیا میں تیری رحمت کا کوئی نہیں کنارہ
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا
زندگی ہماری اب تو بس تیرے ہاتھ میں ہے
بدل جائے پھر زمانہ گر تیرا ہو جائے اِک اشارہ
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہم پر کرم کیا اور ہم 18 دسمبر 1947ء کو پاکستان پہنچ کر اپنے بزرگوں سے ملے جن میں 2 کم تھے ۔ ایک میرے والد صاحب کے جوان چچازاد بھائی کو جموں ہی میں شہید کر دیا گیا تھا اور اُس کے والد 5 نومبر کے قافلہ میں تھے جو تقریباً سب شہید کر دیئے گئے تھے
اللہ اکبر
جس نے وہ دور دیکھا ہو وہ کبھی نہیں بھلا سکتا وہ وقت