میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ 1960ء میں گرمیوں کی چھُٹیوں میں گھر راولپنڈی آیا ہوا تھا ۔ ایک دِن ریڈیو سے ایک گیت سُنا ۔ پسند آیا اور لکھ لیا
1973ء میں میری چھوٹی بہن کی شادی ہوئی ۔ میں نے بغیر کسی کو بتائے Public Address Systemکا بندوبست کر رکھا تھا جس کے سپیکر گھر کے ماتھے پر لگائے تھے اور مائیکروفون بیٹھک (Drawing Room) میں چھُپا رکھا تھا ۔ رُخصتی کے وقت بہن کو اپنے دروازے پر وِداع کر کے بھاگا اور بیٹھک میں بند ہو کر یہ گیت گانا شروع کر دیا
پچھلے دِنوں اپنی بھتیجی کی شادی پر یہ گیت یاد آیا . سوچا قارئین کی نظر کیا جائے
بابل کی دعائی لیتی جا ۔ جا تُجھ کو سُکھی سَنسار مِلے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے ۔ سسرال میں اِتنا پیار مَلے
بِیتیں تیرے جِیون کی گھڑیاں پیار کی ٹھنڈی چھاؤں میں
کانٹا بھی نہ چُبھنے پائے کبھی میری لاڈلی تیرے پاؤں میں
اُس دوار پہ بھی نہ کوئی آنچ آئے جس دوار سے تیرا دوار مِلے
بابل کی دعائیں لیتی جا ۔ جا تُجھ کو سُکھی سَنسار مِلے
بَچپَن میں تُجھے پالا میں نے پھُولوں کی طرح کلیوں کی طرح
میرے باغ کی اے نازک ڈالی ۔ جا تُجھ پر سَدا بہار رہے
بابل کی دُعائیں لیتی جا ۔ جا تُجھ کو سُکھی سَنسار مِلے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے ۔ سسرال میں اِتنا پیار مِلے
یہ گیت میری بچپن کی یادوں میں سے ایک بہترین یاد ہے ۔۔۔ میری دادی مجھے اپنے پاس لٹا کر سنایا کرتی تھیں اور سناتے سناتے روتی جاتی تھیں : )