میں کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہم لوگ محبِ وطن ہونے کی بجائے کیا وطن دُشمن ہیں ؟
گو میں وطن (پاکستان) سے باہر درجن بھر ممالک میں رہاہوں لیکن بھارتی باشندوں سے میرا واسطہ صرف 4 ممالک (جرمنی ۔ سعودی عرب ۔ متحدہ عرب امارات اور لبیا) میں پڑا ۔ جرمنی میں سکھوں سے واسطہ پڑا جو ہر حال میں خوش رہتے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات میں جن سے واسطہ پڑا وہ زیادہ تر ہندو تھے ۔ سعودی عرب میں صرف بھارتی مسلمانوں سے واسطہ پڑا اور لبیا میں بھارتی ہندو اور مسلمان دونوں سے
میں نے دیکھا کہ
بھارتی باشندے کبھی اپنی زبان پر اپنے مُلک (بھارت) کے خلاف کوئی بات نہیں آنے دیتے اور اگر کسی دوسرے مُلک کا باشندہ بھارت یا بھارت کے لوگوں کے خلاف کوئی بات کرے تو اُس کی بھرپور مخالفت اور اپنے وطن اور اپنے ہموطن کی زور دار حمایت کرتے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف اُن کے پاس مصدقہ یا خیالی الزامات ہوتے تھے جس سے وہ پاکستانیوں پر بھرپور وار کرتے تھے
میں نے اپنے ہموطنوں کو دیکھا کہ سب کے سامنے اپنے مُلک اور ہموطنوں سے برملا شکایات کا اظہار کرتے تھے ۔ لبیا میں میرا قیام کافی لمبا ہونے کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ میرے بعض مسلمان ہموطن اپنے مُلک اور ہموطنوں کی مخالفت میں لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے تھے اور بھارتی ہندوؤں سے دوستی رکھتے تھے
یہ تو خاکہ تھا مُلک سے باہر کردار کا ۔ اب دونوں ممالک کے اندر کے حالات کا منظر نامہ
بھارت میں لوگ آپس میں جھگڑا اور تکرار ہم پاکستانیوں کی نسبت زیادہ کرتے ہیں ۔ بھارت میں مار دھاڑ بھی پاکستان ک نسبت زیادہ ہے لیکن جب معاملہ بھارت بمقابلہ غیر مُلک (بالخصوص پاکستان) کا ہو تو ایک دوسرے کے جانی دُشمنوں سمیت بلا امتیاز سب بھارتی یک زبان ہو کر محبِ وطن بن جاتے ہیں
میرے پاکستانی بھائی جن میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سب سے زیادہ ایمان دار اور دیانتدار سمجھتا ہے وہ کوئی موقع اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں پر تنقید کا ضائع نہیں ہونے دیتا یہاں تک کہ وہ قومی اور مُلکی معاملات جن کی یک زبان ہو کر ببانگ دُہل ہمیں حمایت کرنا چاہیئے اُسے غلط طور یا کج فہم کی بنا پر گندھی سیاست کا نُقطہ بنا کر میڈیا ۔ سوشل میڈیا اور ذاتی محفلوں میں اپنے مخالف سیاستدانوں کی ہِجو شروع کر دیتے ہیں ۔ اس عمل میں صرف عام یعنی کم عِلم آدمی ہی نہیں بلکہ سیاسی سربراہ بھی بڑے کرّ و فر سے شامل ہوتے ہیں ۔ یہ ایسے وقت میں ہوتا ہے جب ہماری قوم اور ہمارے مُلک کا دُشمن اسی بات پر ہمارے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ میں مشغول ہوتا ہے ۔ اور ہماری قوم کا تمسخر اُڑا رہا ہوتا ہے
اب یہ بھارتی ایجنسی ” را “ کے ایجنٹ کلبوشن یادیو کا قصہ ہی لیجئے ۔ اُس بلوچستان آمد اور کارستانیوں کی معلومات فوج کی کسی ایجنسی نے حاصل کر کے اپنی ہائی کمان کو اطلاع کی ۔ فوج ہی نے اُسے گرفتار کیا اور آئین و قانون کے مطابق اُس پر مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلایا گیا اور پھانسی کی سزا مقرر ہوئی ۔ اگر بھارت اُس کا مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں لے گیا اور بین الاقوامی عدالت نے حسبِ معمول تعصب کا ارتکاب کرتے ہوئے بھارت کی درخواست برائے امتناع مان لی تو بجائے اس کے کہ سب سیاسی سربراہ قومی مفاد میں تمام اختلاف کو ایک طرف رکھتے ہوئے وہی آواز اُٹھاتے جو مؤقف پاکستان کے وکیل نے وہاں پر اختیار کیا تھا حکومت کے خلاف محاذ جنگ بنا کر قوم اور مُلک کو دُسمنوں ک نظر مں مذاق بنا دیا
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
سلام مسنونہ اور رمضان مبارک کے بعد عرض ہے.
(حمائت اور محاظ. کیا اردو میں صحیح تلفظ ایسے ہی ہیں!؟ جہاں بھی ہم نے دیکھے ہیں، حمایت اور محاذ ہی دیکھے ہیں. شکریہ)
محب وطن صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نشان دہی کیلئے مشکور ہوں ۔ درست کر دیا ہے ۔ یہ میری لاپرواہی کا نتیجہ تھا کی لکھنے کے بعد پڑتال نہیں کی تھی