میں انگلستان ۔ جرمنی ۔ بیلجیئم ۔ ہالینڈ ۔ فرانس ۔ امریکہ ۔ ترکی ۔ لبیا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات میں رہا ہوں ۔ میری عادت تھی کہ بڑے شہروں میں اندرونِ شہر کے چکر لگانے کے ساتھ بیرونِ شہر ۔ چھوٹے شہروں اور دیہات میں بھی گھومتا تھا ۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ وہاں کے لوگوں کا اصلی طور طریقہ دیکھ کر اگر کوئی اچھی عادت نظر آئے تو اسے اپنانے کی کوشش کروں ۔ اس سے مجھے وہاں کی شہری اور دیہاتی آبادی میں تفاوت بھی نظر آتی ۔ میں نے جرمنی ۔ بیلجیئم ۔ ہالینڈ ۔ ترکی اور عرب ممالک میں دیہات یا چھوٹے شہروں کے باشندوں کو سادہ طبعیت پایا ۔ شہروں میں ز یادہ تر دکھاوا اور تعصب دیکھنے کو ملتا تھا جس کی ایک وجہ ذرائع ابلاغ اور دوسری وجہ غیر ممالک سے آئے لوگوں کی موجودگی یا طور طریقہ تھا
میں نے ہر مُلک میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا بھی مطالعہ کیا ۔ سوائے 2 ممالک کے لوگوں کے باقی سب اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کا دفاع کرتے تھے ۔ فرق رویئے والے پاکستانی اور فلسطینی تھے جو اپنے مُلک کو اچھا نہیں سمجھتے ۔ ان میں میرے ہموطن اوّل نمبر پر تھے کہ وہ اپنے ہموطنوں میں بھی کیڑے نکالتے تھے ۔ عرب ممالک میں میرے ہموطن عربوں کو جاہل و بیوقوف گردانتے تھے اور کچھ دلیر اپنی اس سوچ کا اظہار عربوں پر بھی کرتے تھے ۔ عربوں کے متعلق خود بنائی ہوئی ایسی ایسی باتیں بھی مجھے سُنائی گئیں جو عملی طور پر ممکن ہی نہ تھیں
یہ تو تھا میرا تجربہ ۔ اب ذرا 6 فروی کو شائع ہونے والی ایک خبر پڑھیئے جو شاید جنگ اخبار کے پاکستان ایڈیشن میں بھی شائع ہوئی ہو اور اس کا مقابلہ اپنے وطن کے حالات سے کیجئے جہاں مسجد کے لاؤڈ سپیکر کے خلاف آواز تو اُٹھتی ہے لیکن گھروں اور گاڑیوں میں جو دماغ پھاڑ قسم کی موسیقی بجائی جاتی ہے اُسے کوئی کچھ نہیں کہتا
درست کہا آپ نے ہم (پاکستانی) خود اپنے دشمن ہیں کوئی اور کیا دشمنی کرے گا : )
بہت ہی احسن اقدام ہے ۔۔ لیکن ہمارے ہاں تو ایک دوسرے سے اونچی سے اونچی آواز پر زور دیا جاتا ہے کہ لوگ بس ہماری اذان سنیں (بھلے وہ کھڑکیاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں) ۔۔۔۔ اور گاڑیوں اور گھروں حتیٰ کہ اب تو شادی کی تقریبات بھی بچی ہوئی نہیں رہیں اس کان پھاڑ شور سے ۔